اتوار، 6 ستمبر، 2015

September 06, 2015 at 08:39PM

"حور"۔۔۔ قسط: 29 -- آخری قسط۔۔۔ کا پہلا حصہ ۔ ۔ ۔ تحریر: اویس سمیر۔۔۔ (گزشتہ سے پیوستہ) حور سیریس حالت میں تھی، مگر مجھے میری دعاؤں پر بھروسہ تھا، بچی الحمدللہ ٹھیک ٹھاک تھی، میں نے اس کو اپنی گود میں لیا، میٹھی نیند سوتی ننھی مُنی، معصوم سی گُڑیا، "اِس کی بھی حور جیسی بڑی بڑی آنکھیں ہونگی"، میں نے سوچا، اور مسکرا دیا، اس کے نرم نرم گالوں کو چھوتا رہا، بہت دیر تک سینے سے لگا کر رکھا، اتنی تھکن اتنی ٹینشن کے بعد اللہ نے مجھے اتنا خوبصورت انعام جو دیا تھا، حور کی جانب سے پریشانی تھی مگر اس کو دیکھا اس کا چہرہ بہتر لگ رہا تھا، جس طرح میں نے اس کو کومہ کی حالت میں دیکھا تھا اس سے کہیں زیادہ بہتر لگ رہی تھی، مجھے اپنی دعاؤں پر یقین تھا جیسے اللہ نے اس دعا کو قبول کیا ویسے ہی باقی بھی قبول ہونگی، یہی تو حکم ہے، "توکّل!" اس کی ذات پر، پھر ہر مشکل آسان ہوجاتی ہے، بس اس کی چاہت کو اپنی چاہت بنا لو، یا پھر اپنی چاہت کو اس کی چاہت کے مطابق ڈھال لو! اگلی شام میں حور کے سرہانے بیٹھا ہوا تھا کہ مجھے اس کی نقاہت بھری آواز آئی، "ساحل! ۔ ۔ ۔"، اُس کو ہوش آرہا تھا، میں فوراً نرس کر اطلاع دینے گیا! (اب آگےپڑھئے) میں فوراً ہی نرس کو لے آیا، میری بےچینی بےتابی سے اب تک تو ہسپتال کا اسٹاف بھی آگاہ ہو چکا تھا لہذا مجھے اُن کی جانب سے وی آئی پی ٹریٹمنٹ مل رہی تھی، نرس نے آتے ہی پہلے ابتدائی طور پر چیک کیا، اور پھر رپورٹ میں نہ جانے کیا درج کرتے ہوئے باہر نکل گئی، کچھ ہی دیر گزری ہوگی کہ چند جونیئر ڈاکٹر حضرات آگئے، شاید یہ ان کا اسٹڈی کیس تھا، بےدرپے مختلف واقعات نے اس کیس کو منفرد بنا دیا تھا، کومہ، ذہنی دباؤ، ولادت، کمزوری، اور الحمداللہ اس سب کے باوجود اللہ کی دعاؤں سے یہ سب ممکن ہوا، ڈاکٹر بھی اس پر حیران تھے، مگر میں مطمئن تھا، اللہ بہت بار اس طرح کے کرشمے دکھاتا ہے کہ کئی دفعہ ناممکنات کو ممکنات سے تبدیل کردیتا ہے اور انسان محو حیرت رہتا ہے کہ کیا سوچا تھا اور کیا ہوگیا مگر حکمت اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ کچھ ہی دیر میں وہی سینیئر ڈاکٹر صاحب کمرے میں داخل ہوئے جن سے میرا جھگڑا ہوا تھا، میں نے ان سے ہاتھ ملایا، "میں نے کہا تھا کہ آپ کی دعائیں بہت کام آئیں گی، ساحل صاحب، بہت بار ایسے کیسز سامنے آتے ہیں کہ ہم ڈاکٹر حضرات بھی حیران رہ جاتے ہیں، ہماری سائنس، حکمت و ڈاکٹری وہاں لاچار ہوجاتی ہے اور پھر بڑے سے بڑے ملحد کو بھی اللہ کی ذات پر یقین آجاتا ہے، ہم تو پھر عام گناہ گار مسلمان ہیں، اس طرح کے کیس ہمارے ایمان کی تقویت کا باعث بنتے ہیں، بظاہر ہمیں یوں ہی لگ رہا تھا کہ ماں اور بچے میں سے کسی ایک ہی کی جان بچ سکتی ہے، لیکن جب کیس کو ہاتھ میں لیا تو صورتحال مزید واضح ہوئی، معلوم ہوا کہ کیس ابھی اس نہج پر نہیں پہنچا، پھر آپ کے سخت رویہ نے ہماری بشری لاپرواہی اُڑن چھو کردی، تمام ٹیم اس کیس کو حل کرنے میں لگ گئی اور یوں ہم نے اللہ کی مدد سے اس کیس کو حل کیا، تمہاری دعائیں کام میں آگئیں اور دیکھو سب کچھ ٹھیک ہوگیا۔" میں کیا کہتا، سب کچھ تو انہوں نے کہہ ہی دیا تھا، مسکرا کر انہیں جگہ دی، وہ آگے بڑھے حور کا معائینہ کیا اور نرس کو کچھ مزید احکامات دے کر چلے گئے۔ اب مجھے ٹھیک طرح سے حور کو دیکھنے کا موقع ملا تھا، اس کی نظریں بےچینی سے ادھر اُدھر منڈلا رہی تھیں، میں سمجھ گیا، ماں اپنی اولاد کو دیکھنا چاہ رہی ہے، لہذا اپنی گُڑیا کو نرمی سے گود میں لیا اور گھوم کر بستر کی دوسری جانب سے اُٹھا کر حور کے پہلو میں لِٹا دیا، ایک ہلکی سے نقاہت زدہ مسکراہٹ حور کے لبوں پر آئی، اپنے ہاتھ پر زور دے کر اس نے بچی کو اپنے سینے سے نزدیک کیا اور اپنی آنکھیں بند کرلیں، دو ننھے ننھے آنسو اس کی آنکھ سے نکل پڑے، اس کے لب ہلے، "الحمد للہ ، الحمدللہ، الحمدللہ"، آنسو تو میرے بھی بہہ نکلے تھے، مگر میں نے دوسری جانب منہ کرکے اپنی آستین سے صاف کئے، میں نہیں چاہتا تھا کہ حور مجھے اس طرح دیکھے، ابھی اس کو بہت زیادہ ہمت کی ضرورت تھی۔ دوپہر تک اس کی حالت مزید بہتر ہوچکی تھی، شام تک باقی افراد بھی آگئے تھے رشتہ داروں کا تانتا بندھ گیا، مبارک بادوں اور مٹھائی کے ڈبوں کا ڈھیر لگ گیا تھا، جو بھی دیکھتا یہی کہتا کہ بچی اپنی ماں پرگئی ہے، نہ جانے کیوں یہ سُن کر ہر بار میں دل میں "الحمد للہ" کہتا، میری تو دعا ہی یہی تھی کہ اللہ کرے اس کی عادت و اطوار بھی حور سے ہی میل کھائیں۔ شام کو حور نے ہلکا سا کھانا کھایا، لوگوں کو اٹینڈ کرتی کرتی کافی تھک سی گئی تھی، رات لوگوں کا رش کم ہوا، بھائی بھی گھر چلے گئے، حور اور میری والدہ کے گھر جانے کے بعد میں اور حور ہی رہ گئے۔ مجھے بہت دیر بعد اس سے باتیں کرنے کا موقع ملا تھا، وہ بھی منتظر تھی، میں نے نہایت قریب آ کر اس سے سرگوشی میں کہا، "کیسی لگی میری "نور العین"؟"، حور نے حیرت سے مجھے دیکھا، پھر مسکرا کر مصنوعی ناراضگی سے کہنے لگی، "نام رکھ لیا اور مشورہ بھی نہیں"، ----- "اب بتا دیا نا! کیسا لگا؟"، میں نے پوچھا ۔ ۔ ۔ "بہت اچھا" وہ بولی، "بالکل اِس کی روشن آنکھوں جیسا" --------- صبح اماں کے آنے کے بعد مجھے تھوڑا وقت ملا تو میں نے سوچا کیوں نہ پرانے آفس اپنے واجبات کی وصولی کے لئے چکر لگا لیا جائے، مگر پہلے فون کرکے معلوم کرلوں، دبئی جانے سے قبل معلوم کیا تھا تو حساب بےباق نہیں ہوا تھا، اب اس بات کو کئی ماہ گزر چکے تھے، فون کیا تو معلوم ہوا کہ چیک تیار ہے اور میرا ہی انتظار کر رہا ہے، لہذا حور اور اماں کو ایک کام کا بتا کر وہاں سے روانہ ہوا، آفس پہنچا اور سیدھا فنانس ڈپارٹمنٹ گیا، چند کاغذات پر پر دستخط لئے گئے، کچھ ہی دیر میں چیک میرے پاس تھا، مجھے کچھ دیر انتظار کا کہا گیا، نہ جانے کیا بات تھی، "سر آپ سے ملنا چاہتے ہیں!"، فنانس آفیسر نے پیغام دیا۔ "اب کیا مصیبت پڑ گئی، کوئی پرانا کیس نہ کھول دیں"، میں نے دل میں سوچا اور ان کے آفس کی جانب چل پڑا مجھے دیکھ کر وہ مسکرائے، آگے بڑھ کر ہاتھ ملایا اور بیٹھنے کا کہا، ادھر اُدھر کی بات کی، کچھ دیر بعد میں نے اجازت چاہی اور بتایا کہ حور ہسپتال میں ہے۔ "ساحل، تم سے مجھے ایک ضروری بات کرنی تھی"، وہ دروازہ بند کرتے ہوئے واپس اپنی سیٹ پر آگئے "جی سر"، میں نے کہا، "ساحل، تمہارے جانے کے بعد ٹاپ مینیجمنٹ کی ایک میٹنگ ہوئی، اس میں ان تمام معاملات اور آڈٹ رپورٹ کا ازسرِ نو جائزہ لیا گیا تھا، اور ان ہی رپورٹ کی روشنی میں تین بڑی مچھلیوں کی کرپشن بےنقاب ہوئی تھی، ظاہر سی بات ہے اس کے بعد ان کی جاب تو کیا سلامت رہنی تھی، معاشرے میں اپنی نیک نامی اور ساکھ بھی کھو بیٹھے، کمپنی نے ان پر مقدمہ بھی کیا جس کو ابھی تک وہ بھگتا رہے ہیں، ساحل، کمپنی اپنے عمل پر بہت شرمندہ ہے" "میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں سر"، ان کی باتیں مجھے کچھ بھی نیا رُخ نہیں دکھا رہی تھیں، میں جلد ہسپتال واپس جانا چاہتا تھا تاکہ اپنا کام مکمل کرسکوں۔ "ساحل، کمپنی تم کو دوبارہ جاب آفر کرتی ہے، اپنی پرانی پوزیشن پر، تمہارا گریڈ بڑھا دیا جائیگا، اور چونکہ تمہارے پاس اب باہر کا بھی تجربہ ہے، لہذا تنخواہ بھی پہلے سے زیادہ ہوگی"، انہوں نے کہا ایک لمحے کو تو میں گڑبڑا گیا، ان کی مادہ پرستانہ آفر ہی ایسی تھی کہ کسی کا دل بھی لچا جاتا، میں نے کچھ دیر سوچا، "کیا سوچ رہے ہو؟"، انہوں نے پوچھا "سر، ایک بات کہوں، میری رپورٹ میں تو آپکی بھی کرپشن کی داستان تھی، اس پر کس قدر عمل ہوا؟" میں نے سیدھا سوال کیا "کیا بات کر رہے ہو ساحل، کمپنی نے اس رپورٹ کو بھی دیکھا تھا، مگر انہوں نے اس کو مسترد کردیا، تم سے جو کہا اس پر دھیان دو، ایسی آفر بار بار نہیں ملتی" ، انہوں نے ایک بات پھر لالچ دیا "سر میری بات کا جواب مل جائے تو میں کچھ سوچوں، میری رپورٹ پر عمل کیوں نہیں ہوا؟"، میں نے دوبارہ ان کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا "ساحل، وہ رپورٹ بوگس تھی، ساحل، ہم مل کر کام کرینگے، مجھے افسوس ہے پچھلی دفعہ تمہارے ساتھ ہونے والی زیادتی میں تمہارا ساتھ نہیں دے سکا!"، وہ بولے "سر لعنت بھیجتا ہوں میں ایسی نوکری پر، اتنی غیرت الحمدللہ ہے کہ بھیک میں ڈالی ہوئی نوکری پر لات مارتا ہوں، اللہ کے سوا کسی سے ڈرتا نہیں، میرا ایمان ہے رزق اس ہی ذات کے ہاتھ میں ہے، کسی فنانس مینجر کے ہاتھ میں نہیں، اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف، سر جو کمپنی میری تمام رپورٹ کو دوبارہ از سر نو زندہ کرکے تین افسران کو نکال سکتی ہے اور ایک رپورٹ کو چھوڑ دیتی ہے تو مجھے تو لگتا ہے کہ یہ بھی ایک بڑا گیم ہے اور اس گیم کا ایک حصہ آپ بھی ہیں، نوکری کرنی ہے سر کھیل اور سیاست نہیں کرنی! اور ہاں، جس طرح پچھلی بار آپ نے مجھے سپورٹ نہیں کیا تھا امید ہے آگے بھی جب آپ لوگوں کو ایک کاندھے کی ضرورت ہوگی مجھے یا مجھ جیسے کسی ملازم کو استعمال کیا جائے گا اور پھر ٹِشو پیپیر کی طرح پھینک دیا جائے گا۔ اس بات کا مجھے یقین ہے کہ پچھلی بات کیا، ، ، آئندہ بھی کبھی ایسا ہوا تو آپ کو اپنی سیٹ ہی بچانی ہوگی، کیسی مِڈل لیول ملازم کی نہیں!" میں نے چند جملوں میں ان کے چالیس سالہ تجربہ کا پول کھول دیا تھا، وہ آگے سے کچھ نہیں بولے، پتا تھا کہ اگر دوبارہ بھرتی کیا بھی گیا تو صرف اپنے کرپٹ مقاصد میں استعمال کی غرض سے کیا جائے گا اور کام نکلوا کر واپس پھینک دیا جائے گا، دوسری بات میری فطرت نہیں تھی کہ ایک جگہ سے دھکا کھا کر دوبارہ اس مقام پر جاؤں۔ لہذا اللہ پر بھروسہ کرکے آفر ان کے منہ پر مار کر نکل آیا۔ ------------------- واپسی پر چیک کیش کرا کر اپنے اکاؤنٹ میں جمع کروائے مبادا کہ سابق باس بپھرا ہوا سانپ بن کر چیک بھی نہ کینسل کروا دے۔ حور کو آ کر پوری بات بتائی اس نے بھی میرے فیصلے کو سراہا۔ تین دن بعد حور کو ڈسچارج کردیا گیا، نقاہت بہت تھی، ٹریٹمنٹ ختم ہوچکی تھی، ہسپتال میں بیڈ ریسٹ ہی دیا جارہا تھا، ڈاکٹر نے بھی رسمی اجازت دے دی تھی، لہذا اور ٹھہرنا منساب نہ سمجھا، گھر آ کر حور آرام ہی کرتی رہی، ننھی نور العین کو سنبھالنے کی ذمہ داری میں نے اور امی نے اٹھائی ہوئی تھی، اس کی آنکھیں بالکل حور کی طرح تھیں، بڑی بڑی، گہری۔ ----------------- (بقیہ حصہ اگلی پوسٹ میں)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں