اتوار، 6 ستمبر، 2015

September 06, 2015 at 08:41PM

"حور"۔۔۔ قسط: 29 -- آخری قسط۔۔۔دوسرا، بقیہ اور آخری حصہ ۔ ۔ ۔ ۔ تحریر: اویس سمیر۔۔۔ نوکری کے لئے میں نے دوبارہ کوششیں شروع کردیں، کئی جگہ درخواستیں بھیجیں، انٹرویو بھی دئے، ابھی تک کہیں سے بھی جواب نہیں آیا تھا، کچھ ہی دن بعد ایک کمپنی کی جانب سے جواب آیا، ایک اور بار انٹرویو ہوا، تنخواہ پچھلی تنخواہ سے کچھ کم تھی، میں اس ہی شش و پنج میں تھا کہ اس آفر کو قبول کیا جائے کہ نہیں ۔ ۔ ۔ کئی دن اس میں ہی گزر گئے، میں نورالعین اور حور کی محبتوں میں مگن رہا ، تقریباً دو ہتے مجھے یہاں آئے گزر چکے تھے کہ ایک دن پھر ایک عجیب صورتحال نے نئے دوراہے پر لا کھڑا کیا، دبئی والی کمپنی کے آفس سے کال تھی، ویزہ پراسس ایک ہفتے میں مکمل ہونا تھا جس کے بعد مجھے واپسی کا سفر کرنا تھا، کیا کروں کیا نا کروں، جاؤں یا پھر یہیں رُک جاؤں، اس بات کا ذکر حور سے کیا جائے یا نہیں، ڈھیروں سوالات میرے ذہن پر آہستہ آہستہ جمع ہوتے گئے اور وبال جان بن گئے تھے، یہاں تک کہ ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر حور نے میری پریشانی محسوس کرلی اور پوچھ ڈالا، "کیا ہوا ہے ساحل؟"، اس نے نور کو گود میں بہلاتے ہوئے مجھ سے سوال کیا، "کچھ بھی تو نہیں ۔ ۔ ۔ادھر لاؤ میری گُڑیا کو؟"، میں نے ننھی نور کو اپنی گود میں لیتے ہوئے بات ٹالنے کی کوشش کی، "ابھی تک نہیں بدلے ساحل، ہر پریشانی چھپاتے ہیں، اور میں بھی دیکھو بھانپ ہی جاتی ہوں" ، اس نے کِن انکھیوں سے دیکھتے ہوئے مجھے کہا "چھوڑو حور ۔ ۔ ابھی نہیں"، میں نے کہا، "پھر کب ساحل ، کبھی نہ کبھی تو مسائل کو حل کرنا ہے، تو ابھی کیوں نہیں؟" اس نے مجھے جانے نہ دیا "اچھا بابا"، میں نے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا "دبئی والی جاب سے کال آگئی ہے، دو ہفتوں میں واپسی ہے"، میں نے کہا کچھ دیر حور خاموش رہی، پھر اس نے دھیرے سے کہا، "تو؟ اس میں کیا پریشانی؟ آپ کا فیصلہ ہمیشہ ٹھیک ہی ہوا ہے۔" اس کی آواز مدھم ہی رہی "مجھے پتا تھا تمہیں ٹھیک نہیں لگے گا"، میں نے کہا "نہیں ساحل ایسی بات نہیں ہے، میں تو بالکل ٹھیک ہوں"، وہ مسکرائی، "بس آپ جانے کی تیاری کریں، ہماری بالکل فکر نہ کریں، میں نور میں مگن رہوں گی"، وہ چہکی "اور میں؟ نور کو محبت دینے میں میرا حصّہ؟"، میں نے شکوہ کر ڈالا۔ بات آئی گئی ہوگئی ۔ ۔ ۔ میں نے آفس رابطہ کیا، ویزہ اور ٹکٹ کے حوالے سے کوششیں شروع کردیں، کچھ ہی دن میں میرے ہاتھ میں ورکنگ ویزہ اور ٹکٹ آچکا تھا، وقت گزر رہا تھا روانگی کے دن قریب آرہے تھے، میں حور اور ننھی نورالعین کے ساتھ بہت سارا وقت گزارنا چاہتا تھا، اتنی محبت سمیٹ لینا چاہتا تھا کہ جتنی مجھے دور رہنے کے لئے کافی ہو جائے، لیکن شاید میرا فلسفہ غلط تھا، محبت جتنی بھی سمیٹ لو، جب دور جاؤ تو دل اس سے زیادہ چاہت دوبارہ مانگتا ہے۔ حور کے پاس جب بھی جاتا ، اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں مجھے محبت کے ساتھ ساتھ عجیب سا خوف بھی دکھائی دیتا، مجھے ایسا لگتا تھا کہ وہ پھر سے کھو دینے کے خوف کا شکار ہورہی ہے، نور کے آنے سے تو سب مسائل حل ہوجانے چاہئے تھے، میں تو سمجھتا تھا کہ جب بچے ہوجائیں تو میاں بیوی کی آپسی محبت تقسیم ہوجاتی ہے، محبت میں شراکت دار جو آجاتے ہیں لیکن جب تجربہ ہوا تو معلوم ہوا کہ شراکت تو دور کی بات، محبت تو تقسیم کی شئے ہی نہیں، یہ تو بڑھتی ہی چلی جاتی ہے، جیسے ہر ایک نئے اضافے کے ساتھ اتنی ہی محبت کا مزید اضافہ ہوجائے۔ ----------- ایئرپورٹ، میرا مختصر سا سامان جسے حور نے محبت سے پیک کیا ہے، میرے ماں باپ، میرا بھائی اور بھابی، میرے ساتھ ایئرپورٹ پر کھڑے ہیں، سامان رکھتا ہوں، نورالعین کو گود میں لے کر خوب سارا پیار کرتا ہوں، ننھی کے سر پھر نرم نرم ہلکے ہلکے سے بال آگئے ہیں، ان کو سہلاتا ہوں، ان کو پیار کرتا ہوں، باقی گھر والوں سے ملتا ہوں ، مگر دل میں تشنگی باقی رہتی ہے۔ شاید کچھ غلط کر رہا ہوں ۔ ۔ ۔ ---------- میں نے اندر کی جانب قدم بڑھائے، آخری نظر حور پر ڈالی اور پھر گود میں ہمکتی نورالعین کی جانب نگاہ ڈالی، چمکتی آنکھیں روشن چہرہ، نظر اوپر اُٹھائی، حور کے چہرے پر اداسیوں کے ڈیرے، مجھے اپنی جانب دیکھتا دیکھ کر نہ جانے کیوں مسکرانے کی ناکام کوشش کرنے لگی، پتا نہیں خود کو یا پھر مجھے دھوکہ دے رہی ہو، ۔ ۔ ۔ زندگی میں بہت بار ایسا ہوتا ہے جب دلی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی آواز دے کر روک لے، میں نے اندر کی جانب چلنا شروع کیا، ۔ ۔ ۔ کوئی تو پُکار لو ۔ ۔ ۔ ۔ حور ۔ ۔ ایک بار کہہ دو کہ "ساحل لوٹ آؤ" تو ساری دنیا، نوکری، سب کچھ چھوڑ کر تمہارے پاس آجاؤں گا، خدا نے رزق جہاں لکھا ہے وہاں سے ہی ملے گا، اتنا ہی ملے گا، "ساحل ۔ ۔ ۔ کہاں گیا تمہارا توکل؟"، میں نے خود سے سوال کیا، قدم اندر کی جانب بڑھ گئے ٹکٹ گارڈ کو دکھایا اور اندر کی جانب روانہ ہوگیا۔ کاؤنٹرکی جانب بڑھا لائن میں لگا، سارے مسافر ایک ایک کرکے اپنا سامان رکھوا رہے تھے اور بورڈنگ پاس لے رہے تھے، میری باری آنے میں کچھ وقت لگا، ایک سوچوں کا تسلسل تھا جس میں بہا جارہا تھا "کیا میں ٹھیک کر رہا ہوں؟ کیا ایک پھر سے وہی کہانی دہرائی جائے گی؟ یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں اور حور ایک دوسرے کے بناء نہیں رہ سکتے پھر بھی میں دل پر جبر کرکے چلا آیا ۔ ۔ ۔ یہ سوچے بغیر کہ میرے جانے کے بعد اس کا کیا حال ہوگا ۔ ۔ ۔ دن تو کام کاج کی مصروفیات میں گزر جائے گا مگر راتوں کا خراج کس سے طلب کیا جائے؟" "ساحل، تمہاری بیٹی کو تمہاری ضرورت ہے، کہ جب اس کو تمہاری محبت، قربت، چاہت، لمس کی ضرورت ہو تم سات سمندر پار پیسہ کمانے کی مشین بنے ہوئے ہو، زندگی میں پیسہ کمانا ضروری ہے، لیکن "صرف" پیسہ کمانا ایک بہت بڑی غلطی ہے، تمہیں اپنے گھر والوں کی ضرورت ہے، اور تمہارے خاندان کو تمہاری ضرورت!" "ایک ایسی محبت کہ جس میں کھو دینے کا خوف نہ ہو!" ننھی نورالعین کا ہمکنا، اس کی بڑی آنکھیں، روشن پیشانی، معصومیت، لمس، اس کو وہ سینے سے لگانا، ایک سال دو سال تین سال کا عرصہ اپنی اولاد سے دور رہنا ۔ ۔ ۔ "بس یہی تھا تمہارا توکّل ساحل؟ یہیں تمام ہوگئیں ساری باتیں؟ اب بھی وقت ہے" - - -"سر پلیز"، کاؤنٹر پر بیٹھے شخص نے اپنا ہاتھ آگے بڑہایا، میں نے ٹکٹ اور ویزہ اس کی جانب بڑھایا، مگر رُک کیا، "ایکسکیوز می!"، یہ کہہ کر میں لائن سے باہر آگیا ۔ ۔ گزرے ہوئے لمحات ایک فلم کی مانند میرے ذہن میں چل رہے تھے، میں سب کچھ برداشت کرلیتا، جہاں اتنے امتحان برداشت کئے وہاں ایک اور امتحان بھی سہہ لیتا، لیکن شاید میں اپنی حور کو بہت کچھ دینا چاہتا تھا، سب سے بڑھ کر وہ محبت جس کی اس کو چاہ تھی، ایسی محبت کہ جس میں کھو دینے کا خوف نہ ہو! میرے قدم واپسی کی جانب بڑھنے لگے، باہر آتے آتے میں اپنا ٹکٹ پُرزے پُرزے کرکے ہوا میں اڑا چکا تھا۔ زندگی میں اتنا ہلکا پھُلکا کبھی محسوس نہ کیا تھا۔ مسکراہٹ میرے لبوں پر تھی، ٹھنڈی ہوائیں سی چلنے لگی تھیں، ایسا سکون جیسے سخت گرمی میں اچانک کہیں سایہ مل جائے ۔ ۔ ۔ میرے قدم اپنی حور کی جانب بڑھ رہے تھے جس کے چہرے کی مسکراہٹ کو میں اور بڑھا دینا چاہتا تھا! اس محبت کو اَمر کردینا چاہتا تھا! (ختم شُد)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں