ہفتہ، 5 ستمبر، 2015

September 06, 2015 at 01:02AM

"حور"۔۔۔ قسط: 28 ۔۔۔ تحریر: اویس سمیر۔۔۔ (گزشتہ سے پیوستہ) رات آپریشن شروع ہوا، بھائی بھی آچکے تھے، اور آتے ہی ان پر ایک کام کا بوجھ خون کا بندوبست کرنا تھا، میں نے بھی خون کے لئے اپنے دوستوں کو فون کرنا شروع کردیا، اللہ اللہ کرکے بندوبست ہوا، آپریشن اسٹارٹ ہوچکا تھا، اماں، بھائی اور میں باہر بیٹھے تھے، ماحول میں ٹینشن جیسے کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی تھی، اچانک آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھُلا، ڈاکٹر صاحب نے مجھے ساتھ آنے کا اشارہ کیا، اندر تھیٹر کی جانب ایک طرف لے جا کر مجھے کہنے لگے، "صبح میں آپ سے ذکر کر چکا تھا، کیس بگڑ چُکا ہے، ابھی صورتحال مزید واضح ہوئی ہے، مجھے افسوس ہے ہم ماں اور بچے میں سے کسی ایک کو ہی بچا سکتے ہیں ۔ ۔ ۔ " میرا خون کھول رہا تھا، ڈاکٹر میری جانب حیران نظروں سے دیکھنے لگا، میں نے ان کی طرف دیکھ کر کہا ، "ڈاکٹر صاحب، جائیے جو آپکی ذمہ داری ہے وہ پوری کیجئے" "دیکھو، آپ کو ایک فیصلہ کرنا پڑیگا ۔ ۔ "، اس کے الفاظ ابھی زبان پر ہی تھے کہ میں نے جھپٹ کر اس کا گریبان پکڑ لیا "کیسا فیصلہ ۔ ۔؟؟" میں چینخا! ۔ ۔ ۔"تم کون ہوتے ہو جان بچانے والے؟" میں بےقابو ہورہا تھا، "زندگی دینے والی ذات صرف اللہ کی ہے اللہ کی!" میں نے اس کو جھٹکا دیا "جاؤ جا کر اپنی کوشش کرو ۔ ۔ مجھے نہیں کرنا کوئی فیصلہ ویصلہ ،، ، " وہ دیوار سے لگا خوف زدہ نظروں سے مجھے دیکھ رہا تھا "ساحل ساحل ۔۔ چھوڑو اسے ۔ ۔ دور ہٹو ۔ ۔ " ، بھائی دوڑتے ہوئے آئے اور مجھے چھڑانے لگے۔ (اب آگےپڑھئے) "ڈاکٹرصاحب معاف کیجئے گا، آپ جائیں ٹریٹمنٹ کریں، کسی چیز کی ضرورت ہو تو میں یہاں موجود ہوں۔۔ ۔ "، بھائی نے معذرت خواہانہ لہجے میں ڈاکٹر صاحب سے کہا پھر مجھے کاندھے سے پکڑ کے سائیڈ پر لے گئے، "ساحل، صبر کرو، ایسے معاملات حل نہیں ہوتے"، انہوں نے نہایت مدبرانہ انداز میں مجھ سے کہا "میرے معاملات ایسے ہی ہیں بھائی"، میں نے بغیر سوچے سمجھے کہا، "یہ فیصلے انسان کے اختیار میں نہیں بھائی، اگر کسی کی زندگی ہے تو یہ بھی لکھا ہے اور کسی کی موت لکھی ہے تو وہ بھی لکھا ہے، اور سب سے بڑھ کر مجھے کسی کی جان کی بھیک کسی ڈاکٹر سے نہیں مانگنی، اگر میں اپنے پیاروں کی زندگی کی بھیک مانگوں گا تو اللہ سے مانگوں گا۔" میں نے ایک یقین سے کہا، اور بات بھی یہی تھی، کیوں میں ایک انسان جو کہ خود لاچار مخلوق ہے کے سامنے دست سوال پھیلاؤں، آخر کیوں؟ میرا رُخ مسجد کی جانب تھا، اُس وقت آپریشن تھیٹر کے سامنے کھڑے ہوکر پریشان ہونے کا کوئی فائدہ مجھے نظر نہیں آیا، مجھے میری منزل مصلّے پر نظر آرہی تھی۔ کئی گھنٹے تک آپریشن جاری رہا، میں جائے نماز پر بیٹھا اللہ کے حضور اپنی اور اپنے ہونے والی اولاد کی زندگی کی بھیک مانگتا رہا، نظر بار بار آسمان کی جانب اٹھتی، مجھے نہیں معلوم تھا کہ آپریشن تھیٹر میں کیا ہورہا تھا، صرف اتنا پتا تھا کہ حور اس وقت تکلیف میں ہے اور اس کو کوئی چیز بچا سکتی ہے تو دعائیں ہی ہیں۔ ادھر بھائی آپریشن تھیٹر کے باہر کھڑے ہوئے تھے، خون کا بندوبست کرنا، کئی سارے کام انہوں نے اپنے ذمہ لے رکھے تھے، پریشانی کے وقت میں کسی کی تھوڑی سی بھی مدد بہت ہوتی ہے، اور یہ تو پھر ایک پوری ذمہ داری اٹھا لینے والی بات تھی، یہی وجہ تھی کہ مجھے پوری لگن کے ساتھ دعائیں مانگنے کا موقع مل گیا، میری دعاؤں میں اپنے بھائی کے لئے بھی بہت ساری دعائیں تھیں، بھلے اپنی مالی حالت کی وجہ سے وہ میری کوئی مالی امداد نہیں کرسکے لیکن زندگی کی ہر مشکل اور پریشانی میں ایک مضبوط سہارا بن کر میرے ساتھ موجود رہے۔ کافی دیر بعد میں واپس لوٹا، سب باہر خاموش کھڑے تھے، نہ جانے کیا ہوا تھا، شاید کوئی بات تھی ۔ ۔ یا پھر شاید کوئی اطلاع ملنی تھی، میرا دل پھٹنے لگا، نہ جانے کیا ہونے والا تھا ٹھیک اسی وقت، آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھلا، اور ڈاکٹر صاحب چہرے سے ماسک ہٹاتے ہوئے باہر نکلے، چہرے پر مسکراہٹ تھی، "الحمدللہ دونوں حیات ہیں!" انہوں نے کہا۔ میں سجدہ میں گِر گیا، آنسو میری آنکھوں سے رواں تھے۔ "مگر اگلے اڑتالیس گھنٹے بہت سیریس ہیں، آپکی دعائیں بہت کام آئیں گی"، ڈاکٹر نے میری جانب دیکھ کر لفظ "آپکی" پر زور دے کر کہا۔ "ہوش میں آتے ہی مجھے اطلاع پہنچائیں!"، اس نے ساتھ میں موجود نرس کو احکامات دئے۔ مجھے اللہ پر توکل تھا، بھروسہ تھا کہ جہاں اس نے اتنے مشکل حالات اور امتحانات میں کامیاب کیا وہ آگے بھی بھلا ہی کریگا، کچھ بھی ہو میں نے اس ہی کے در پر سر جھکانا ہے، مل جائے تو ٹھیک، نہ ملے تو اس کا اچھا نعم البدل اور اگر دنیا میں نہ ملا تو یقیناً اس کا اجر آخرت میں تو ضرور ملے گا، اللہ پر یقین ہو تو کچھ بھی ممکن ہے، وہی تو ہے جو کہتا ہے جو بھی مانگنا ہے مجھ سے مانگو، یہ ہم ہی ہیں کہ اس سے مانگنے کے بجائے دنیا میں اِدھر اُدھر غیروں کے دروں پر دھکے کھاتے ہیں۔ وہ تو کہتا ہے کہ تم قدم اُٹھاؤ میں چل کر آؤں گا، تم چل کر آؤ میں دوڑ کر آؤں گا، وہ تو کہتا ہے کہ تمہارا جوتے کا تسمہ بھی ٹوٹے تو مجھ سے مانگو، اور ہم ہیں کہ اس قدر اسپیشل آفر کو بھی نعوذباللہ قبول کرنے سے ہچکچاتے ہیں! حور سیریس حالت میں تھی، مگر مجھے میری دعاؤں پر بھروسہ تھا، بچی الحمدللہ ٹھیک ٹھاک تھی، میں نے اس کو اپنی گود میں لیا، میٹھی نیند سوتی ننھی مُنی، معصوم سی گُڑیا، "اِس کی بھی حور جیسی بڑی بڑی آنکھیں ہونگی"، میں نے سوچا، اور مسکرا دیا، اس کے نرم نرم گالوں کو چھوتا رہا، بہت دیر تک سینے سے لگا کر رکھا، اتنی تھکن اتنی ٹینشن کے بعد اللہ نے مجھے اتنا خوبصورت انعام جو دیا تھا، حور کی جانب سے پریشانی تھی مگر اس کو دیکھا اس کا چہرہ بہتر لگ رہا تھا، جس طرح میں نے اس کو کومہ کی حالت میں دیکھا تھا اس سے کہیں زیادہ بہتر لگ رہی تھی، مجھے اپنی دعاؤں پر یقین تھا جیسے اللہ نے اس دعا کو قبول کیا ویسے ہی باقی بھی قبول ہونگی، یہی تو حکم ہے، "توکّل!" اس کی ذات پر، پھر ہر مشکل آسان ہوجاتی ہے، بس اس کی چاہت کو اپنی چاہت بنا لو، یا پھر اپنی چاہت کو اس کی چاہت کے مطابق ڈھال لو! اگلی شام میں حور کے سرہانے بیٹھا ہوا تھا کہ مجھے اس کی نقاہت بھری آواز آئی، "ساحل! ۔ ۔ ۔"، اُس کو ہوش آرہا تھا، میں فوراً نرس کر اطلاع دینے گیا! (جاری ہے) کیا حور ٹھیک ہوجائے گی؟ ہسپتال کا بِل ۔ ۔ ۔ ایک نئی پریشانی، کیسے حل ہوگی؟ کیا ساحل واپس حور کو چھوڑ کر واپس دبئی چلا جائیگا؟ کیا کہانی کا اختتام جدائی ہے؟ یا پھر نہیں؟ کیا اشیاء کی محبت، احساس کی محبت پر غالب آجائے گی؟ پڑھئے ۔ ۔ ۔ کل آخری قسط! (حور - - - اویس سمیر)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں