جمعہ، 4 ستمبر، 2015

September 04, 2015 at 09:52PM

"حور"۔۔۔ قسط: 27 ۔۔۔ تحریر: اویس سمیر۔۔۔ (گزشتہ سے پیوستہ) میں اس کے بستر کے کنارے سر ٹکا کر بیٹھا ہوا تھا، میرے سر پر اس ہی شفیق ہاتھ کا لمس محسوس ہوا، میں نے ماں کی گود میں سر رکھ دیا، نہ جانے کتنے آنسو ان کی گود میں گرا دئے، وہ میرے بالوں میں اپنی انگلیوں سے کنگھی کرتی رہیں۔ ان کے لب ہلتے رہے، دعائیں کرتی رہیں مجھ پر دم کرتی رہیں، بہت سکون مل رہا تھا، میری اس وقت بس ایک ہی دعا تھی، اللہ میری حور کو اچھا کردے۔ ڈاکٹر کے مطابق حور ہوش میں تو آ گئی تھی، مگر مستقل نقاہت میں تھی، کبھی اس پر بیہوشی طاری ہوجاتی تو کبھی بہتری کی طرف جاتے جاتے پھر بگڑ جاتی، میں بہت پریشان تھا، اور پھر یہ ایک نہیں دو جانوں کا سوال تھا ۔ ۔ ۔! (اب آگےپڑھئے) میں ساری رت جاگتا ہی رہا، نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور تھی، اماں میری گرتی ہوئی صحت دیکھ کر بہت پریشان تھیں، میں کرتا بھی کیا، ان حالات میں کس کو کھانے پینے کا ہوش تھا، آںکھوں کے گرد حلقے تھے کو مزید بڑھ کر میرا سراپا خوفناک بنا رہے تھے۔ پھر بھی میں نے ضد کرکے اماں کو گھر بھیج دیا تھا وہ بھی مستقل یہاں رہنے سے تھک گئیں تھیں، اور اصل بات یہ بھی تھی کہ میں اپنی حور کی دیکھ بھال خود کرنا چاہتا تھا، رات بھر اس ہی امید میں رہا کہ حور کب آنکھیں کھولے اور مجھ سے باتیں کریں، ۔ ۔ ۔ بھلے بات نہ کرے مگر میری جانب آنکھ اُٹھا کر ہی دیکھ لے، مجھے باتوں کیلئے الفاظ کی ضرورت نہیں، حور سے میں آنکھوں آنکھوں میں ہی بہت باتیں کرسکتا تھا۔ مگر اس رات حور نہ جاگی۔ "حور ۔ ۔ ۔دیکھو نا ۔ ۔ میں لوٹ آیا، یاد کرو تم نے ایک دفعہ کہا تھا کہ تمہیں ایسی محبت کی چاہ ہے جو کھو دینے کا خوف نہ رکھتی ہو، دیکھو میں لوٹ آیا تمہارے لئے، اب وہی محبت ہوگی جیسا تم چاہتی ہو" "حور ۔ ۔ ۔ تمہیں پتا ہے؟ ایک بات جو میں نے نہ جانے کب سے تم سے چھپائی ۔ ۔۔ بولو؟ بتا دوں؟ پتا ہے شادی سے قبل میں نے ایک بار بھی تمہاری تصویر نہیں دیکھی تھی، مجھے سرپرائز بہت پسند تھے، اور دیکھو اللہ نے پھر مجھے تمہاری صورت زندگی کا ایک انمول سرپرائز دیا" "یاد ہے حور، جب میں نے پہلی بار باہر جانے کا فیصلہ کیا تھا، تو تم کیسی روہانسی سی ہوگئیں تھیں! اور تم مجھ سے شکایت کرتی کرتی مجھ میں سمٹنے لگیں تھیں! اس دن میں نے مزید سرد مہری دکھائی تھی، کیوں؟ کیوں کہ مجھے تمہارا مجھ میں سمٹنا بہت بھلا لگ رہا تھا" "اور ہاں حور۔۔ جب پہلی بار تم ناراض ہوئیں تھیں تو تمہیں کیسے منایا تھا؟ یاد ہے؟ نہ کچھ کہا تھا نہ کچھ سُنا، وہ ساری باتیں آنکھوں ہی آنکھوں میں ہوگئیں تھیں، پتا ہے ۔ ۔ ۔ تمہارا یوں میرے کاندھے کو سختی سے بھینچ لینا ہی مجھے بتلا گیا کہ اب ہمارے درمیان کوئی خلا نہیں!" "اور ہاں ۔ ۔ ۔ یہ چوڑیاں ۔ ۔ یہ تمہاری ان نازک کلائیوں میں ہی اچھی لگتی ہیں! انہیں اپنے ہاتھ سے اُتارنے اور مجھ پر وارنے کیلئے اتنی بےتاب نہ ہوا کرو" اور ۔ ۔ نہ جانے کتنی ساری باتیں میں اس سے کرتا جارہا تھا، وہ آنکھیں بند کئے بستر پر دراز تھی، شاید سُن رہی تھی، یا شاید نہیں، مگر مجھے تو یہ سب کچھ اس سے کہنا تھا، اس کو بتانا تھا، اور میں کہتا ہی گیا، نہ جانے کتنے گھنٹے گزر گئے، میں اس وقت رُکا جب میرے کانوں میں فجر کی اذان کی آواز آئی اور میرے ہاتھ بےاختیار دعا کے لئے اُٹھ گئے، آنسو میری آنکھوں میں تھے، ہاتھ بلند ، جس قدر اللہ سے بھلائیاں مانگ سکتا تھا مانگتا گیا، نماز کا وقت ہوگیا تھا میں نے وضو کیا اور نماز ادا کی، نماز پڑھ کر بھی دعاؤں میں ہی مشغول رہا، اور پھر وہیں بستر سے سر ٹکا دیا، نہ جانے کب میری آنکھ لگ گئی۔ صبح ہوچکی تھی ۔ ۔ ۔ حور بدستور غنودگی میں تھی، ہسپتال کا اسٹاف کمرے کی صفائی اور چادر وغیرہ بدلنے کے لئے آیا ہوا تھا، ایک نرس بھی ساتھ تھی، اس کے ہاتھ میں کچھ رپورٹس تھیں جن پر وہ پین سے کچھ لکھ رہی تھی، پھر وہ میری جانب متوجہ ہوئی اس نے میرا مریضہ سے رشتہ پوچھا اور پھر ساری تفصیلات بتانے لگی، اس کی ساری باتوں کا لب لباب صرف یہ تھا کہ ، "ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے، بڑے ڈاکٹر صاحب آکر ہی تفصیل بتائیں گے"، خیر جہاں اتنا انتظار کیا تھا وہاں اور کرلیتا مجھے بہرحال اللہ سے مانگی گئیں اپنی دعاؤں پر اتنا تو بھروسہ تھا کہ وہ کسی دعا کو رد نہیں کرے گا۔ مجھے انتظار کرتے کرتے کئی گھنٹے گزر چکے تھے، گھڑی دیکھنا چھوڑ چکا تھا، بس وقت کے بہاؤ کے ساتھ بہتا چلا جارہا تھا، کافی دیر بعد ڈاکٹر صاحب کی آمد ہوئی، ان کی آمد کے ساتھ ہی سارا اسٹاف اپنے اپنے کاموں میں لگ گیا، میری جانب آتے آتے ان کو مزید ایک گھنٹہ لگ چکا تھا، جب تک میں مزید ذہنی دباؤ کا شکار ہوچکا تھا۔ وہ میری جانب آئے، رپورٹ دیکھنے لگے، میں نے بےصبری سے کچھ ۔۔ بلکہ بہت کچھ پوچھنا چاہا جسے انہوں نے شان بے نیازی سے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا، "نہ جانے کیسے اتنے بےرحم ہوجاتے ہیں لوگ"، میں نے سوچا۔ بہت دیر بعد وہ گویا ہوئے، "چونکہ مریضہ کی جسمانی کمزوری، کومہ اوردوسری کامپلیکیشنز کی وجہ سے یہ کیس بگڑ چکا ہے، لہذا میں یہ مشورہ دوں گا کہ آج ہی آپریشن کرا دیں تاکہ زیادہ لیٹ ہونے سے مزید خرابیاں ہونے سے بچ جائیں" مجھے نہیں معلوم تھا کہ کیا کہہ رہا ہے، کیوں کہہ رہا ہے، آج رات آپریشن کا وقت دے دیا گیا تھا۔ رات آپریشن شروع ہوا، بھائی بھی آچکے تھے، اور آتے ہی ان پر ایک کام کا بوجھ خون کا بندوبست کرنا تھا، میں نے بھی خون کے لئے اپنے دوستوں کو فون کرنا شروع کردیا، اللہ اللہ کرکے بندوبست ہوا، آپریشن اسٹارٹ ہوچکا تھا، اماں، بھائی اور میں باہر بیٹھے تھے، ماحول میں ٹینشن جیسے کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی تھی، اچانک آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھُلا، ڈاکٹر صاحب نے مجھے ساتھ آنے کا اشارہ کیا، اندر تھیٹر کی جانب ایک طرف لے جا کر مجھے کہنے لگے، "صبح میں آپ سے ذکر کر چکا تھا، کیس بگڑ چُکا ہے، ابھی صورتحال مزید واضح ہوئی ہے، مجھے افسوس ہے ہم ماں اور بچے میں سے کسی ایک کو ہی بچا سکتے ہیں ۔ ۔ ۔ " میرا خون کھول رہا تھا، ڈاکٹر میری جانب حیران نظروں سے دیکھنے لگا، میں نے ان کی طرف دیکھ کر کہا ، "ڈاکٹر صاحب، جائیے جو آپکی ذمہ داری ہے وہ پوری کیجئے" "دیکھو، آپ کو ایک فیصلہ کرنا پڑیگا ۔ ۔ "، اس کے الفاظ ابھی زبان پر ہی تھے کہ میں نے جھپٹ کر اس کا گریبان پکڑ لیا "کیسا فیصلہ ۔ ۔؟؟" میں چینخا! ۔ ۔ ۔"تم کون ہوتے ہو جان بچانے والے؟" میں بےقابو ہورہا تھا، "زندگی دینے والی ذات صرف اللہ کی ہے اللہ کی!" میں نے اس کو جھٹکا دیا "جاؤ جا کر اپنی کوشش کرو ۔ ۔ مجھے نہیں کرنا کوئی فیصلہ ویصلہ ،، ، " وہ دیوار سے لگا خوف زدہ نظروں سے مجھے دیکھ رہا تھا "ساحل ساحل ۔۔ چھوڑو اسے ۔ ۔ دور ہٹو ۔ ۔ " ، بھائی دوڑتے ہوئے آئے اور مجھے چھڑانے لگے۔ (جاری ہے)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں