اتوار، 27 دسمبر، 2015

افسانہ: خاموش محبت


کوئی عام سا دن تھا میں ہسپتال اپنے ایک عزیز کی عیادت کیلئے گیا تھا. ان سے فارغ ہو کر میں نے سوچا کیوں نہ یہیں نماز پڑھ کی جائے، ہسپتال کے بہت کونے پر نماز کی جگہ تھی، نماز ادا کی یہیں کونے پر چند سنگل روم تھے جہاں کچھ مریضوں کو رکھا گیا تھا. اپنے تجسس میں میَیں ایک کمرے میں داخل ہوا. عام سا ہسپتال کا کمرہ کے جس میں دواؤں کی مہک کچھ زیاده ہی تھی. ایک وجود بستر پر پڑا ہوا بند آنکھیں سکوت چہرے پر ایک لڑکی کوئی تیس سال کی عمر کی ہوگی. کچھ دیر کیلئے نہ جانے کیا ہوا میں یوں ہی دیکھتا رہا پھر فوراً باہر آگیا
مبادا کہ کوئی دیکھ لے اور بات کیا سے کیا ہوجائے، پورا دن نہ جانے کیوں میں گم سم سا رہا،
اگلے دن آفس سے واپسی پر میری بائیک نہ جانے کیوں دوبارہ ہسپتال کی جانب مڑ گئی، کچھ دیر میں میں اس ہی روم کے باہر کھڑا ہوا تھا، مجھے ڈر بھی لگ رہا تھا، اس پری پیکر کو یوں گھورتے مجھے کسی نے دیکھ لیا تو کیا سوچے گا، نہ جانے ہسپتال کے اس جانب کسی کی آمد و رفت ہے کہ نہیں
قدموں کی چاپ سنائی دیتے ہی میں نے سوچا کہ کہیں بھاگ جاؤں مگر پھر نہ جانے کیوں ساکن سا ہو گیا، وہ ایک نرس تھی، اپنے معمول کی ٹریٹمنٹ کے بعد وہ وہاں سے جانے لگی، اس نے اچٹتی سی نگاہ مجھ پر ڈالی، اور چلی گئی
میں گھر واپس آگیا، نہ جانے کیا ہوا تھا، میرا روز کا معمول وہی بن گیا تھا، آفس سے واپس آ کر میں سیدھا وہیں جاتا مجھے نہیں پتا تھا میرا کیا مقصد تھا مگر کچھ مقناطیسی سا تھا جو مجھے وہاں لے جاتا، گھر پر میں نے کام سے زیادتی کا بہانا بنا دیا تھا، مگر یہ میں ہی جانتا تھا کہ میں کہاں تھا اور کیا کررہا تھا۔
"سنیں ، ، ، آپ جانتے ہیں نا مریضہ کی حالت کس اسٹیج پر ہے؟"، ایک دن اچانک نرس اپنی معمول کی کاروائی کے بعد مجھ سے مخاطب ہوئی، میں خاموش رہا، آپ ان سے باتیں کیا کیجئے، وہ تکلیف میں ہیں، مگر بہت کچھ ہوتا ہے انسان آخری وقت میں کہنا چاہتا ہے۔"
"جی"، میں اس سے زیادہ کچھ بھی نہ کہہ سکا۔
اس دن میں پہلی دفعہ اس کے بیڈ کے کافی نزدیک کھڑا ہوا، وہ ساکن سی پڑی تھی، میں کچھ دیر بعد واپس آگیا
میں نہیں جانتا مجھے اپنا پہلا لفظ کہتے کتننے دن کی محنت لگی تھی مگر بالآخر میں نے یہ معرکہ سر انجام دے ہی دیا تھا، بیڈ کے سرہانبے لگی تختی پر اس کا نام لکھا تھا میں نے اس کو اس کے نام سے پکارا، کچھ دیر انتظار کیا، مگر پھر سے پکارنے کی ہمت نہ ہوئی،
میں ایسا ہی تھا، ایک دفعہ کسی کام میں مایوس ہوجاتا تو پھر کوشش ترک کردیتا
مگر اس دن ایسا نہ ہوا، میں نے کئی بات وقفے وقفے سے اس کو پکارا، مگر بے سود
وہ بھی ایک معمول کا دن تھا میں اس کے بیڈ کے نزدیک کھڑا اس کو دیکھ رہا تھا کہ اس نے آنکھیں کھول دیں ، میرا دل کیا چینخ چینخ کر سب کو بتادوں مگر کچھ سوچ کر خاموش رہا، ایک جذبات کا سمندر میرے دل میں تھا، اس نے ہاتھ کے اشارے سے کچھ کہا، میں وہ سمجھتا تھا،
وہ اشاروں کی زُبان تھی، وہ مجھ سے پانی لانے کا کہہ رہی تھی، جگ سے پانی لا کر اس کو پلانا ایک الگ سعی تھی، مگر میں جس کیفیت سے گزر رہا تھا اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا ۔۔ ۔
اس دن اس نے مجھ سے کچھ کہنے کی کوشش کی، میں اشاروں میں صرف چند لفظ جانتا تھا
اس کے ہر اشارے پر میں "مجھے پتا ہے" کا نشان اپنے سینے پر ہاتھ رکھ رکھ کر کہتا رہا۔
میں نے شام کی کلاسس میں اشاروں کی زبان سیکھنی شروع کی
اب میں اس سے باتیں کرسکتا تھا
وہ صرف اپنی کیفیت بتاتی رہتی تھی، وہ تکلیف میں مبتلا تھی، اس کو ٹھیک سے نظر نہیں آتا تھا، وہ میرا بار بار شکریہ ادا کرتی تھی، نہ جانے وہ مجھے کون سمجھتی، اکثر بچوں کا پوچھتی، میں کہہ دیتا بچے سو گئے تھے، وہ مطمئن ہوجاتی،
کبھی سوچتا اگر کسی دن اس کا کوئی جاننے والا آگیا تو کیا جواب دونگا کہ میں کون ہوں اور اس کے پاس کیا کررہا ہوں، مجھے نہیں پتا تھا بس میں نہ جانے کیوں اپنے آپ کو روک نہیں پارہا تھا ۔ ۔
دن بدن اس کی حالت خراب ہوتی جارہی تھی، اس کا خرچہ ہسپتال کی ایک فلاحی تنظیم اٹھا رہی تھی، کبھی میں جاتا تو اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے، پہلے اپنی تکلیف کا رونا روتی تھی، پھر مجھ سے معافی مانگتی کہ میں اس قدر مصروفیت کے بعد بھی اس کے پاس آتا ہوں اس کو وقت دیتا ہوں
اس کی باتوں سے ایسا لگتا میں اس کو کوئی بہت قریبی جاننے والا ہوں، کبھی سوچتا اس سے پوچھوں ، پھر سوچتا کہ نہ جانے میں پوچھوں تو وہ سارا ماحول جو بنا ہوا ہے، اس نے اپنے ذہن میں جو کچھ میرے بارے میں سوچا ہوا ہے، یہ مجھے جو بھی سمجھ رہی ہے، سب کرچی کرچی نہ ہوجائے، کہیں اس ہی کی وجہ سے وہ تڑپ نہ جائے، کہیں یہی تکلیف اس کی جان نہ لے لے
میں ایک الگ ہی آگ میں جلنے لگا تھا ، مجھے لگتا میں اس کے ساتھ مذاق کررہا ہوں، کبھی لگتا ٹھیک کررہا ہوں، اس کو دو پل کی خوشی میری وجہ سے ملتی ہے تو اس میں کیا برا ہے، کبھی سوچتا اس کو دھوکے میں کیوں رکھوں ، تو کبھی سوچتا کہ بعض دفعہ دھوکہ حقیقت سے زیادہ پیارا ہوتا ہے 
ہم بھی تو زندگی میں کئی دفعہ حقیقت سے نظریں چراتے ہیں، اور اپنے من پسند ماحول میں رہنا چاہتے ہیں، 
میں نے سوچا یونہی چلتے رہنا چاہئے، شاید بہت سی چیزیں جیسے چل رہی ہوں ویسے ہی چلتی اچھی لگتی ہیں، 
کبھی کبھی سوچتا نہ جانے کب یہ سب ختم ہوگا
مجھے جلد ہی جواب مل گیا، اس کی حالت خراب ہورہی تھی، 
میں روز گھر لوٹتا تو بہت پریشان ہوتا، کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ کیا کروں کس سے کہوں، گھر والوں نے پریشانی محسوس کی میں نے ٹال دیا، کیا کہتا؟ ایک انجان مریضہ کے پاس وقت گزارتا ہوں، اپنی گرہستی چھوڑ کو اس کو وقت دیتا ہوں؟
مگر ایک انجانا سا اطمینان تھا
اس دن اس کی حالت بہت خراب تھی، اس کو آئی سی یو میں منتقل کردیا گیا، 
ڈاکٹروں کی نقل و حرکت، ای سی جی آواز،شور، دوپہر کچھ دیر کو اس کی حالت سنبھلی، میں اس کے پاس گیا، وہ اپنی آنکھیں تلکلیف سے بند کرتی اور پھر کبھی کھولتی، وہ مجھے دیکھنے کی کوشش کرتی میرا چہرہ پہچاننے کی کوشش کرتی، یقینی سی بے یقینی تھی، اس نے ہاتھ بڑھایا میں نے تھام لیا، کچھ لمحے گزر گئے، اس نے اشاروں کی زبان بولنی شروع کی
"تم میری پہلی محبت تھے، تم ہی میری آخری محبت ہو، مجھے اچھا لگا میں مر رہی ہوں تو تم میرے پاس ہو، تم نے محبت کا حق ادا کیا، سنو، محبت صرف پا لینے کا نام نہیں، میں تمہیں دیکھتی، خوش ہوتی، مجھے اپنی زندگی کی پرواہ نہ تھی، کبھی سوچتی ہمیں وہ سب کیوں نہیں ملا، مگر پھر تمہیں خوش دیکھتی میں مطمئن ہوجاتی، مگر آج جب کہ میرا بہت تھوڑا وقت اس دنیا میں رہ گیا ہے ، مگر تم جومیرے ساتھ ہو اب جیسے میرے سارے غم دھندھلا گئے، بس ایک عجیب سا سکون اور سرشاری ہے"
میں نے کچھ نہ کہا، جب وہ اپنی بات مکمل کرچکی تو میں نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اشاروں کی زبان میں کہا 
"مجھے معلوم ہے، اور میں بھی تم سے بہت محبت رکھتا ہوں"
اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ پھیل گئی، اس دن عشاء کی نماز کے بعد ان ہی ڈاکٹروں کی دوڑ، ای سی جی کی آوز میں وہ اپنے خالق حقیقی کے پاس جا پہنچی۔
اور اس ہی رات وہ منوں مٹی تلے دفن ہوگئی
کبھی سوچتا ہوں وہ میرا ہسپتال جانا، پھر اس طرف متوجہ ہونا، کیا تھا یہ سب، کیا صرف ایک خواب، یا اس میں کچھ مقصد تھا، نہ جانے کیا تھا، مگر آج میں پرسکون ہوں۔
اویس سمیر

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں