جمعرات، 10 ستمبر، 2015

محبت عین فطرت ♥

 مسجد خالی تھی، میں بہت لیٹ تھا، عصر کی نماز ادا کرتے ہوئے پیچھے آہٹ ہوئی، نماز ختم کی مڑ کر دیکھا تو ایک ننھی مُنی سی بچی دو تین سال کی سِجدے کررہی تھی. مجھے دیکھا ہلکے سے مسکرائی. نماز مکمل کرکے میں باہر نکلا تو وہ بھی کھیلتی کودتی باہر آگئی، پوچھا گھر کدھر ہے تو ہوا میں اشارہ کیا، پوچھا امی کہاں ہیں آپکی تو کہنے لگی 'تائی امی کے پاس'، میں مسکرا دیا. بائیک اسٹارٹ کی تو وہ مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئی. ذرا بائیک چلائی مگر پھر روک دی وہ بائیک کے آس پاس اپنے معصوم کھیل میں مصروف رہی، میں اطراف میں نظر دوڑاتا رہا کے اس کے ماں باپ کدھر ہیں، اتنے میں دوڑ کر ایک گھر کی جانب گئی کیاری سے ایک سفید پھول توڑا بھاگ کر آئی مجھے پکڑا دیا ... میں نے اس کے ہاتھ سے لے کر بائیک پر لگا دیا اور پوچھا 'ٹھیک؟' ہنسنے لگی. میں نے پیار سے کہا 'جلدی گھر جاؤ' تو سامنے والے گھر کی جانب بھاگی جہاں اتنے میں اس کے والد بھی آچکے تھے.
ایک اجنبی کو مسکراہٹ کے بدلے کیاری سے پھول توڑ کے دینا، تین سال کی بچی، معصوم، میں نے تو اتنا سیکھا کہ محبت بانٹنا انسانی فطرت ہے یہ اس معصوم کو کسی نے نہیں سکھایا ہوگا، یہ اس کی فطرت میں تھا.
محبت بانٹو دوستو، اپنی اُس فطرت پر لوٹ جاؤ، جس فطرت میں اللہ نے پیدا کیا.


اویس سمیر

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں