اتوار، 27 دسمبر، 2015

افسانہ: خاموش محبت


کوئی عام سا دن تھا میں ہسپتال اپنے ایک عزیز کی عیادت کیلئے گیا تھا. ان سے فارغ ہو کر میں نے سوچا کیوں نہ یہیں نماز پڑھ کی جائے، ہسپتال کے بہت کونے پر نماز کی جگہ تھی، نماز ادا کی یہیں کونے پر چند سنگل روم تھے جہاں کچھ مریضوں کو رکھا گیا تھا. اپنے تجسس میں میَیں ایک کمرے میں داخل ہوا. عام سا ہسپتال کا کمرہ کے جس میں دواؤں کی مہک کچھ زیاده ہی تھی. ایک وجود بستر پر پڑا ہوا بند آنکھیں سکوت چہرے پر ایک لڑکی کوئی تیس سال کی عمر کی ہوگی. کچھ دیر کیلئے نہ جانے کیا ہوا میں یوں ہی دیکھتا رہا پھر فوراً باہر آگیا
مبادا کہ کوئی دیکھ لے اور بات کیا سے کیا ہوجائے، پورا دن نہ جانے کیوں میں گم سم سا رہا،
اگلے دن آفس سے واپسی پر میری بائیک نہ جانے کیوں دوبارہ ہسپتال کی جانب مڑ گئی، کچھ دیر میں میں اس ہی روم کے باہر کھڑا ہوا تھا، مجھے ڈر بھی لگ رہا تھا، اس پری پیکر کو یوں گھورتے مجھے کسی نے دیکھ لیا تو کیا سوچے گا، نہ جانے ہسپتال کے اس جانب کسی کی آمد و رفت ہے کہ نہیں
قدموں کی چاپ سنائی دیتے ہی میں نے سوچا کہ کہیں بھاگ جاؤں مگر پھر نہ جانے کیوں ساکن سا ہو گیا، وہ ایک نرس تھی، اپنے معمول کی ٹریٹمنٹ کے بعد وہ وہاں سے جانے لگی، اس نے اچٹتی سی نگاہ مجھ پر ڈالی، اور چلی گئی
میں گھر واپس آگیا، نہ جانے کیا ہوا تھا، میرا روز کا معمول وہی بن گیا تھا، آفس سے واپس آ کر میں سیدھا وہیں جاتا مجھے نہیں پتا تھا میرا کیا مقصد تھا مگر کچھ مقناطیسی سا تھا جو مجھے وہاں لے جاتا، گھر پر میں نے کام سے زیادتی کا بہانا بنا دیا تھا، مگر یہ میں ہی جانتا تھا کہ میں کہاں تھا اور کیا کررہا تھا۔
"سنیں ، ، ، آپ جانتے ہیں نا مریضہ کی حالت کس اسٹیج پر ہے؟"، ایک دن اچانک نرس اپنی معمول کی کاروائی کے بعد مجھ سے مخاطب ہوئی، میں خاموش رہا، آپ ان سے باتیں کیا کیجئے، وہ تکلیف میں ہیں، مگر بہت کچھ ہوتا ہے انسان آخری وقت میں کہنا چاہتا ہے۔"
"جی"، میں اس سے زیادہ کچھ بھی نہ کہہ سکا۔
اس دن میں پہلی دفعہ اس کے بیڈ کے کافی نزدیک کھڑا ہوا، وہ ساکن سی پڑی تھی، میں کچھ دیر بعد واپس آگیا
میں نہیں جانتا مجھے اپنا پہلا لفظ کہتے کتننے دن کی محنت لگی تھی مگر بالآخر میں نے یہ معرکہ سر انجام دے ہی دیا تھا، بیڈ کے سرہانبے لگی تختی پر اس کا نام لکھا تھا میں نے اس کو اس کے نام سے پکارا، کچھ دیر انتظار کیا، مگر پھر سے پکارنے کی ہمت نہ ہوئی،
میں ایسا ہی تھا، ایک دفعہ کسی کام میں مایوس ہوجاتا تو پھر کوشش ترک کردیتا
مگر اس دن ایسا نہ ہوا، میں نے کئی بات وقفے وقفے سے اس کو پکارا، مگر بے سود
وہ بھی ایک معمول کا دن تھا میں اس کے بیڈ کے نزدیک کھڑا اس کو دیکھ رہا تھا کہ اس نے آنکھیں کھول دیں ، میرا دل کیا چینخ چینخ کر سب کو بتادوں مگر کچھ سوچ کر خاموش رہا، ایک جذبات کا سمندر میرے دل میں تھا، اس نے ہاتھ کے اشارے سے کچھ کہا، میں وہ سمجھتا تھا،
وہ اشاروں کی زُبان تھی، وہ مجھ سے پانی لانے کا کہہ رہی تھی، جگ سے پانی لا کر اس کو پلانا ایک الگ سعی تھی، مگر میں جس کیفیت سے گزر رہا تھا اس کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا ۔۔ ۔
اس دن اس نے مجھ سے کچھ کہنے کی کوشش کی، میں اشاروں میں صرف چند لفظ جانتا تھا
اس کے ہر اشارے پر میں "مجھے پتا ہے" کا نشان اپنے سینے پر ہاتھ رکھ رکھ کر کہتا رہا۔
میں نے شام کی کلاسس میں اشاروں کی زبان سیکھنی شروع کی
اب میں اس سے باتیں کرسکتا تھا
وہ صرف اپنی کیفیت بتاتی رہتی تھی، وہ تکلیف میں مبتلا تھی، اس کو ٹھیک سے نظر نہیں آتا تھا، وہ میرا بار بار شکریہ ادا کرتی تھی، نہ جانے وہ مجھے کون سمجھتی، اکثر بچوں کا پوچھتی، میں کہہ دیتا بچے سو گئے تھے، وہ مطمئن ہوجاتی،
کبھی سوچتا اگر کسی دن اس کا کوئی جاننے والا آگیا تو کیا جواب دونگا کہ میں کون ہوں اور اس کے پاس کیا کررہا ہوں، مجھے نہیں پتا تھا بس میں نہ جانے کیوں اپنے آپ کو روک نہیں پارہا تھا ۔ ۔
دن بدن اس کی حالت خراب ہوتی جارہی تھی، اس کا خرچہ ہسپتال کی ایک فلاحی تنظیم اٹھا رہی تھی، کبھی میں جاتا تو اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوتے، پہلے اپنی تکلیف کا رونا روتی تھی، پھر مجھ سے معافی مانگتی کہ میں اس قدر مصروفیت کے بعد بھی اس کے پاس آتا ہوں اس کو وقت دیتا ہوں
اس کی باتوں سے ایسا لگتا میں اس کو کوئی بہت قریبی جاننے والا ہوں، کبھی سوچتا اس سے پوچھوں ، پھر سوچتا کہ نہ جانے میں پوچھوں تو وہ سارا ماحول جو بنا ہوا ہے، اس نے اپنے ذہن میں جو کچھ میرے بارے میں سوچا ہوا ہے، یہ مجھے جو بھی سمجھ رہی ہے، سب کرچی کرچی نہ ہوجائے، کہیں اس ہی کی وجہ سے وہ تڑپ نہ جائے، کہیں یہی تکلیف اس کی جان نہ لے لے
میں ایک الگ ہی آگ میں جلنے لگا تھا ، مجھے لگتا میں اس کے ساتھ مذاق کررہا ہوں، کبھی لگتا ٹھیک کررہا ہوں، اس کو دو پل کی خوشی میری وجہ سے ملتی ہے تو اس میں کیا برا ہے، کبھی سوچتا اس کو دھوکے میں کیوں رکھوں ، تو کبھی سوچتا کہ بعض دفعہ دھوکہ حقیقت سے زیادہ پیارا ہوتا ہے 
ہم بھی تو زندگی میں کئی دفعہ حقیقت سے نظریں چراتے ہیں، اور اپنے من پسند ماحول میں رہنا چاہتے ہیں، 
میں نے سوچا یونہی چلتے رہنا چاہئے، شاید بہت سی چیزیں جیسے چل رہی ہوں ویسے ہی چلتی اچھی لگتی ہیں، 
کبھی کبھی سوچتا نہ جانے کب یہ سب ختم ہوگا
مجھے جلد ہی جواب مل گیا، اس کی حالت خراب ہورہی تھی، 
میں روز گھر لوٹتا تو بہت پریشان ہوتا، کچھ سمجھ نہیں آتا تھا کہ کیا کروں کس سے کہوں، گھر والوں نے پریشانی محسوس کی میں نے ٹال دیا، کیا کہتا؟ ایک انجان مریضہ کے پاس وقت گزارتا ہوں، اپنی گرہستی چھوڑ کو اس کو وقت دیتا ہوں؟
مگر ایک انجانا سا اطمینان تھا
اس دن اس کی حالت بہت خراب تھی، اس کو آئی سی یو میں منتقل کردیا گیا، 
ڈاکٹروں کی نقل و حرکت، ای سی جی آواز،شور، دوپہر کچھ دیر کو اس کی حالت سنبھلی، میں اس کے پاس گیا، وہ اپنی آنکھیں تلکلیف سے بند کرتی اور پھر کبھی کھولتی، وہ مجھے دیکھنے کی کوشش کرتی میرا چہرہ پہچاننے کی کوشش کرتی، یقینی سی بے یقینی تھی، اس نے ہاتھ بڑھایا میں نے تھام لیا، کچھ لمحے گزر گئے، اس نے اشاروں کی زبان بولنی شروع کی
"تم میری پہلی محبت تھے، تم ہی میری آخری محبت ہو، مجھے اچھا لگا میں مر رہی ہوں تو تم میرے پاس ہو، تم نے محبت کا حق ادا کیا، سنو، محبت صرف پا لینے کا نام نہیں، میں تمہیں دیکھتی، خوش ہوتی، مجھے اپنی زندگی کی پرواہ نہ تھی، کبھی سوچتی ہمیں وہ سب کیوں نہیں ملا، مگر پھر تمہیں خوش دیکھتی میں مطمئن ہوجاتی، مگر آج جب کہ میرا بہت تھوڑا وقت اس دنیا میں رہ گیا ہے ، مگر تم جومیرے ساتھ ہو اب جیسے میرے سارے غم دھندھلا گئے، بس ایک عجیب سا سکون اور سرشاری ہے"
میں نے کچھ نہ کہا، جب وہ اپنی بات مکمل کرچکی تو میں نے اپنے سینے پر ہاتھ رکھتے ہوئے اشاروں کی زبان میں کہا 
"مجھے معلوم ہے، اور میں بھی تم سے بہت محبت رکھتا ہوں"
اس کے چہرے پر ایک مسکراہٹ پھیل گئی، اس دن عشاء کی نماز کے بعد ان ہی ڈاکٹروں کی دوڑ، ای سی جی کی آوز میں وہ اپنے خالق حقیقی کے پاس جا پہنچی۔
اور اس ہی رات وہ منوں مٹی تلے دفن ہوگئی
کبھی سوچتا ہوں وہ میرا ہسپتال جانا، پھر اس طرف متوجہ ہونا، کیا تھا یہ سب، کیا صرف ایک خواب، یا اس میں کچھ مقصد تھا، نہ جانے کیا تھا، مگر آج میں پرسکون ہوں۔
اویس سمیر

پیر، 28 ستمبر، 2015

ایک اچھا گھر

آپ ایک مرد ہیں آپ آفس میں کام کرتے ہیں. آپ ایک عورت ہیں آپ بھی آفس میں کام کرتی ہیں. آپ مرد ہیں معاش آپ کی ذمہ داری ہے. یہ آپکی نہ صرف دینی بلکہ معاشرتی ذمہ داری بھی ہے. معاشرتی کیسے؟ آگے پڑہیں!
آپ ایک عورت ہیں آپ آفس جاتی ہیں. مگر... گھر آ کر کھانا بھی بناتی ہیں، بچوں کو بھی سنبھالتی ہیں، کپڑے لتے بھی دھوتی ہیں، دیگر کام بھی کرتی ہیں. یہ آپ کی ذمہ داری ہے! لیکن آفس کا کام آپکی ذمہ داری نہیں لیکن آپ وہ بھی سنبھالتی ہیں. چلیں اس پر بھی بات کرینگے، ابھی ایک پہلو پر بات کرتے ہیں.
آپ دونوں آفس جاتے ہیں، تھکے ماندے واپس آتے ہیں ٹریفک کی ریں ریں آفس کی جھک جھک، ایک دن دو دن تین دن پھر روز کا معمول، لاوا آپکے اندر پک رہا ہے. آپ ایک مرد ہیں ایک دن آفس کی ٹینشن زیاده ہوتی ہے اور آپ کھانے میں تاخیر پر شور مچا دیتے ہیں. ابھی رُکیے!
آپ ایک عورت ہیں آج آفس میں آپ بھی جھک جھک کر چکی ہیں اور یہ لاوا لئے گھر میں آئی ہیں مگر آرام کدھر ابھی کھانا بھی تو لگانا ہے، آپ تاخیر کردیتی ہیں اور اُدھر شور مچ جاتا ہے. دوبارہ رُکیے!
آپ ایک عورت ہیں، آپ آفس جاتی ہیں، آپ کماتی ہیں، آپ میں زیاده نہ صحیح تھوڑا سا تکبر بھی ہے، میں آفس جاتی ہوں، محنت کرتی ہوں، میں عام عورت نہیں، میں 'خود' پر اعتماد کرتی ہوں. میں سب کرسکتی ہوں. لیکن... ایک منٹ!
کھانے میں تاخیر، اُدھر شور مچ جاتا ہے. تو آپ بھی کیوں پیچھے رہیں. "آخر میں کوئی عام عورت نہیں!" لہذا لاوا پھٹ جاتا ہے، ایک نہیں دو دو لاوے، مگر رُکیں.
آپ ایک مرد ہیں آپ آفس جاتے ہیں. آپ ایک عورت ہیں آپ آفس جاتی ہیں. مگر کیوں؟ پیسے کمانے؟ جی! کتنے پیسے؟ جتنے میں ضروریات پوری ہوجائیں! چلیں آپکی بات مان لیتے ہیں.
موبائل چاہیے؟ ضرورت ہے؟ جی بالکل. یہ لیجئے چار ہزار روپے کا موبائل یہ ضرورت کو کافی ہے؟ نہیں! مجھے آئی فون چاہیے. وہ کیوں؟ کیوں کہ میری ساری سہیلیوں کے پاس یہی ہے. یعنی بات ضروریات سے آگے ہے یعنی لگژری. اور یہ حضرت نہیں دِلا سکتے تو میں خود ہی نوکری کرکے، پیسہ کما کر، ضروریات... اوہ میرا مطلب لگژریات پورا کرتی ہوں. اوکے جی بات سمجھ آتی ہے.
یعنی تعلقات، جذبات، احساسات، حاوی ہیں لگثریات پر!
ایک بات پیچھے چھوڑ آئے تھے، معاشرتی ذمہ داری کیسے؟ وہ ایسے کہ... آپ مرد ہیں آپ آفس جاتے ہیں یہ آپکی ذمہ داری ہے نہیں جاتے تو معاشرہ ضرور کہے گا کہ یہ ناکارہ شخص ہے. آپ عورت ہیں آفس جاتی ہیں گھر بھی سنبھالتی ہیں، آفس نہ جائیں چلتا ہے مگر گھر نہیں سنبھالیںگی تو معاشرہ ضرور آپ کو قصوروار کہے گا.

تھوڑا سمیٹ لیتے ہیں، یہ گھر کا بارڈر ہے، بانٹ لیتے ہیں، دروازے کے باہر کے کام مرد کے اور دروازے کے اندر کے کام عورت کے، ٹھیک؟ منصفانہ تقسیم؟ دونوں کام ہی ایک دوسرے کی ٹکر کے ہیں، دونوں کی اہمیت یکساں ہے، اب کسی پر اس کی طاقت سے زیاده بوجھ نہیں، سب اپنے اپنے کام میں لگے ہیں ٹھیک. لاوا بھی بجھ چکا ہے. بس اپنی ذمہ داریوں کا تعین کرنا، اور ان کو باحسن پورا کرنا ہے.

اویس سمیر

جمعرات، 10 ستمبر، 2015

محبت عین فطرت ♥

 مسجد خالی تھی، میں بہت لیٹ تھا، عصر کی نماز ادا کرتے ہوئے پیچھے آہٹ ہوئی، نماز ختم کی مڑ کر دیکھا تو ایک ننھی مُنی سی بچی دو تین سال کی سِجدے کررہی تھی. مجھے دیکھا ہلکے سے مسکرائی. نماز مکمل کرکے میں باہر نکلا تو وہ بھی کھیلتی کودتی باہر آگئی، پوچھا گھر کدھر ہے تو ہوا میں اشارہ کیا، پوچھا امی کہاں ہیں آپکی تو کہنے لگی 'تائی امی کے پاس'، میں مسکرا دیا. بائیک اسٹارٹ کی تو وہ مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئی. ذرا بائیک چلائی مگر پھر روک دی وہ بائیک کے آس پاس اپنے معصوم کھیل میں مصروف رہی، میں اطراف میں نظر دوڑاتا رہا کے اس کے ماں باپ کدھر ہیں، اتنے میں دوڑ کر ایک گھر کی جانب گئی کیاری سے ایک سفید پھول توڑا بھاگ کر آئی مجھے پکڑا دیا ... میں نے اس کے ہاتھ سے لے کر بائیک پر لگا دیا اور پوچھا 'ٹھیک؟' ہنسنے لگی. میں نے پیار سے کہا 'جلدی گھر جاؤ' تو سامنے والے گھر کی جانب بھاگی جہاں اتنے میں اس کے والد بھی آچکے تھے.
ایک اجنبی کو مسکراہٹ کے بدلے کیاری سے پھول توڑ کے دینا، تین سال کی بچی، معصوم، میں نے تو اتنا سیکھا کہ محبت بانٹنا انسانی فطرت ہے یہ اس معصوم کو کسی نے نہیں سکھایا ہوگا، یہ اس کی فطرت میں تھا.
محبت بانٹو دوستو، اپنی اُس فطرت پر لوٹ جاؤ، جس فطرت میں اللہ نے پیدا کیا.


اویس سمیر

اتوار، 6 ستمبر، 2015

September 06, 2015 at 08:41PM

"حور"۔۔۔ قسط: 29 -- آخری قسط۔۔۔دوسرا، بقیہ اور آخری حصہ ۔ ۔ ۔ ۔ تحریر: اویس سمیر۔۔۔ نوکری کے لئے میں نے دوبارہ کوششیں شروع کردیں، کئی جگہ درخواستیں بھیجیں، انٹرویو بھی دئے، ابھی تک کہیں سے بھی جواب نہیں آیا تھا، کچھ ہی دن بعد ایک کمپنی کی جانب سے جواب آیا، ایک اور بار انٹرویو ہوا، تنخواہ پچھلی تنخواہ سے کچھ کم تھی، میں اس ہی شش و پنج میں تھا کہ اس آفر کو قبول کیا جائے کہ نہیں ۔ ۔ ۔ کئی دن اس میں ہی گزر گئے، میں نورالعین اور حور کی محبتوں میں مگن رہا ، تقریباً دو ہتے مجھے یہاں آئے گزر چکے تھے کہ ایک دن پھر ایک عجیب صورتحال نے نئے دوراہے پر لا کھڑا کیا، دبئی والی کمپنی کے آفس سے کال تھی، ویزہ پراسس ایک ہفتے میں مکمل ہونا تھا جس کے بعد مجھے واپسی کا سفر کرنا تھا، کیا کروں کیا نا کروں، جاؤں یا پھر یہیں رُک جاؤں، اس بات کا ذکر حور سے کیا جائے یا نہیں، ڈھیروں سوالات میرے ذہن پر آہستہ آہستہ جمع ہوتے گئے اور وبال جان بن گئے تھے، یہاں تک کہ ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر حور نے میری پریشانی محسوس کرلی اور پوچھ ڈالا، "کیا ہوا ہے ساحل؟"، اس نے نور کو گود میں بہلاتے ہوئے مجھ سے سوال کیا، "کچھ بھی تو نہیں ۔ ۔ ۔ادھر لاؤ میری گُڑیا کو؟"، میں نے ننھی نور کو اپنی گود میں لیتے ہوئے بات ٹالنے کی کوشش کی، "ابھی تک نہیں بدلے ساحل، ہر پریشانی چھپاتے ہیں، اور میں بھی دیکھو بھانپ ہی جاتی ہوں" ، اس نے کِن انکھیوں سے دیکھتے ہوئے مجھے کہا "چھوڑو حور ۔ ۔ ابھی نہیں"، میں نے کہا، "پھر کب ساحل ، کبھی نہ کبھی تو مسائل کو حل کرنا ہے، تو ابھی کیوں نہیں؟" اس نے مجھے جانے نہ دیا "اچھا بابا"، میں نے ہتھیار ڈالتے ہوئے کہا "دبئی والی جاب سے کال آگئی ہے، دو ہفتوں میں واپسی ہے"، میں نے کہا کچھ دیر حور خاموش رہی، پھر اس نے دھیرے سے کہا، "تو؟ اس میں کیا پریشانی؟ آپ کا فیصلہ ہمیشہ ٹھیک ہی ہوا ہے۔" اس کی آواز مدھم ہی رہی "مجھے پتا تھا تمہیں ٹھیک نہیں لگے گا"، میں نے کہا "نہیں ساحل ایسی بات نہیں ہے، میں تو بالکل ٹھیک ہوں"، وہ مسکرائی، "بس آپ جانے کی تیاری کریں، ہماری بالکل فکر نہ کریں، میں نور میں مگن رہوں گی"، وہ چہکی "اور میں؟ نور کو محبت دینے میں میرا حصّہ؟"، میں نے شکوہ کر ڈالا۔ بات آئی گئی ہوگئی ۔ ۔ ۔ میں نے آفس رابطہ کیا، ویزہ اور ٹکٹ کے حوالے سے کوششیں شروع کردیں، کچھ ہی دن میں میرے ہاتھ میں ورکنگ ویزہ اور ٹکٹ آچکا تھا، وقت گزر رہا تھا روانگی کے دن قریب آرہے تھے، میں حور اور ننھی نورالعین کے ساتھ بہت سارا وقت گزارنا چاہتا تھا، اتنی محبت سمیٹ لینا چاہتا تھا کہ جتنی مجھے دور رہنے کے لئے کافی ہو جائے، لیکن شاید میرا فلسفہ غلط تھا، محبت جتنی بھی سمیٹ لو، جب دور جاؤ تو دل اس سے زیادہ چاہت دوبارہ مانگتا ہے۔ حور کے پاس جب بھی جاتا ، اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں مجھے محبت کے ساتھ ساتھ عجیب سا خوف بھی دکھائی دیتا، مجھے ایسا لگتا تھا کہ وہ پھر سے کھو دینے کے خوف کا شکار ہورہی ہے، نور کے آنے سے تو سب مسائل حل ہوجانے چاہئے تھے، میں تو سمجھتا تھا کہ جب بچے ہوجائیں تو میاں بیوی کی آپسی محبت تقسیم ہوجاتی ہے، محبت میں شراکت دار جو آجاتے ہیں لیکن جب تجربہ ہوا تو معلوم ہوا کہ شراکت تو دور کی بات، محبت تو تقسیم کی شئے ہی نہیں، یہ تو بڑھتی ہی چلی جاتی ہے، جیسے ہر ایک نئے اضافے کے ساتھ اتنی ہی محبت کا مزید اضافہ ہوجائے۔ ----------- ایئرپورٹ، میرا مختصر سا سامان جسے حور نے محبت سے پیک کیا ہے، میرے ماں باپ، میرا بھائی اور بھابی، میرے ساتھ ایئرپورٹ پر کھڑے ہیں، سامان رکھتا ہوں، نورالعین کو گود میں لے کر خوب سارا پیار کرتا ہوں، ننھی کے سر پھر نرم نرم ہلکے ہلکے سے بال آگئے ہیں، ان کو سہلاتا ہوں، ان کو پیار کرتا ہوں، باقی گھر والوں سے ملتا ہوں ، مگر دل میں تشنگی باقی رہتی ہے۔ شاید کچھ غلط کر رہا ہوں ۔ ۔ ۔ ---------- میں نے اندر کی جانب قدم بڑھائے، آخری نظر حور پر ڈالی اور پھر گود میں ہمکتی نورالعین کی جانب نگاہ ڈالی، چمکتی آنکھیں روشن چہرہ، نظر اوپر اُٹھائی، حور کے چہرے پر اداسیوں کے ڈیرے، مجھے اپنی جانب دیکھتا دیکھ کر نہ جانے کیوں مسکرانے کی ناکام کوشش کرنے لگی، پتا نہیں خود کو یا پھر مجھے دھوکہ دے رہی ہو، ۔ ۔ ۔ زندگی میں بہت بار ایسا ہوتا ہے جب دلی خواہش ہوتی ہے کہ کوئی آواز دے کر روک لے، میں نے اندر کی جانب چلنا شروع کیا، ۔ ۔ ۔ کوئی تو پُکار لو ۔ ۔ ۔ ۔ حور ۔ ۔ ایک بار کہہ دو کہ "ساحل لوٹ آؤ" تو ساری دنیا، نوکری، سب کچھ چھوڑ کر تمہارے پاس آجاؤں گا، خدا نے رزق جہاں لکھا ہے وہاں سے ہی ملے گا، اتنا ہی ملے گا، "ساحل ۔ ۔ ۔ کہاں گیا تمہارا توکل؟"، میں نے خود سے سوال کیا، قدم اندر کی جانب بڑھ گئے ٹکٹ گارڈ کو دکھایا اور اندر کی جانب روانہ ہوگیا۔ کاؤنٹرکی جانب بڑھا لائن میں لگا، سارے مسافر ایک ایک کرکے اپنا سامان رکھوا رہے تھے اور بورڈنگ پاس لے رہے تھے، میری باری آنے میں کچھ وقت لگا، ایک سوچوں کا تسلسل تھا جس میں بہا جارہا تھا "کیا میں ٹھیک کر رہا ہوں؟ کیا ایک پھر سے وہی کہانی دہرائی جائے گی؟ یہ جانتے ہوئے بھی کہ میں اور حور ایک دوسرے کے بناء نہیں رہ سکتے پھر بھی میں دل پر جبر کرکے چلا آیا ۔ ۔ ۔ یہ سوچے بغیر کہ میرے جانے کے بعد اس کا کیا حال ہوگا ۔ ۔ ۔ دن تو کام کاج کی مصروفیات میں گزر جائے گا مگر راتوں کا خراج کس سے طلب کیا جائے؟" "ساحل، تمہاری بیٹی کو تمہاری ضرورت ہے، کہ جب اس کو تمہاری محبت، قربت، چاہت، لمس کی ضرورت ہو تم سات سمندر پار پیسہ کمانے کی مشین بنے ہوئے ہو، زندگی میں پیسہ کمانا ضروری ہے، لیکن "صرف" پیسہ کمانا ایک بہت بڑی غلطی ہے، تمہیں اپنے گھر والوں کی ضرورت ہے، اور تمہارے خاندان کو تمہاری ضرورت!" "ایک ایسی محبت کہ جس میں کھو دینے کا خوف نہ ہو!" ننھی نورالعین کا ہمکنا، اس کی بڑی آنکھیں، روشن پیشانی، معصومیت، لمس، اس کو وہ سینے سے لگانا، ایک سال دو سال تین سال کا عرصہ اپنی اولاد سے دور رہنا ۔ ۔ ۔ "بس یہی تھا تمہارا توکّل ساحل؟ یہیں تمام ہوگئیں ساری باتیں؟ اب بھی وقت ہے" - - -"سر پلیز"، کاؤنٹر پر بیٹھے شخص نے اپنا ہاتھ آگے بڑہایا، میں نے ٹکٹ اور ویزہ اس کی جانب بڑھایا، مگر رُک کیا، "ایکسکیوز می!"، یہ کہہ کر میں لائن سے باہر آگیا ۔ ۔ گزرے ہوئے لمحات ایک فلم کی مانند میرے ذہن میں چل رہے تھے، میں سب کچھ برداشت کرلیتا، جہاں اتنے امتحان برداشت کئے وہاں ایک اور امتحان بھی سہہ لیتا، لیکن شاید میں اپنی حور کو بہت کچھ دینا چاہتا تھا، سب سے بڑھ کر وہ محبت جس کی اس کو چاہ تھی، ایسی محبت کہ جس میں کھو دینے کا خوف نہ ہو! میرے قدم واپسی کی جانب بڑھنے لگے، باہر آتے آتے میں اپنا ٹکٹ پُرزے پُرزے کرکے ہوا میں اڑا چکا تھا۔ زندگی میں اتنا ہلکا پھُلکا کبھی محسوس نہ کیا تھا۔ مسکراہٹ میرے لبوں پر تھی، ٹھنڈی ہوائیں سی چلنے لگی تھیں، ایسا سکون جیسے سخت گرمی میں اچانک کہیں سایہ مل جائے ۔ ۔ ۔ میرے قدم اپنی حور کی جانب بڑھ رہے تھے جس کے چہرے کی مسکراہٹ کو میں اور بڑھا دینا چاہتا تھا! اس محبت کو اَمر کردینا چاہتا تھا! (ختم شُد)

September 06, 2015 at 08:39PM

"حور"۔۔۔ قسط: 29 -- آخری قسط۔۔۔ کا پہلا حصہ ۔ ۔ ۔ تحریر: اویس سمیر۔۔۔ (گزشتہ سے پیوستہ) حور سیریس حالت میں تھی، مگر مجھے میری دعاؤں پر بھروسہ تھا، بچی الحمدللہ ٹھیک ٹھاک تھی، میں نے اس کو اپنی گود میں لیا، میٹھی نیند سوتی ننھی مُنی، معصوم سی گُڑیا، "اِس کی بھی حور جیسی بڑی بڑی آنکھیں ہونگی"، میں نے سوچا، اور مسکرا دیا، اس کے نرم نرم گالوں کو چھوتا رہا، بہت دیر تک سینے سے لگا کر رکھا، اتنی تھکن اتنی ٹینشن کے بعد اللہ نے مجھے اتنا خوبصورت انعام جو دیا تھا، حور کی جانب سے پریشانی تھی مگر اس کو دیکھا اس کا چہرہ بہتر لگ رہا تھا، جس طرح میں نے اس کو کومہ کی حالت میں دیکھا تھا اس سے کہیں زیادہ بہتر لگ رہی تھی، مجھے اپنی دعاؤں پر یقین تھا جیسے اللہ نے اس دعا کو قبول کیا ویسے ہی باقی بھی قبول ہونگی، یہی تو حکم ہے، "توکّل!" اس کی ذات پر، پھر ہر مشکل آسان ہوجاتی ہے، بس اس کی چاہت کو اپنی چاہت بنا لو، یا پھر اپنی چاہت کو اس کی چاہت کے مطابق ڈھال لو! اگلی شام میں حور کے سرہانے بیٹھا ہوا تھا کہ مجھے اس کی نقاہت بھری آواز آئی، "ساحل! ۔ ۔ ۔"، اُس کو ہوش آرہا تھا، میں فوراً نرس کر اطلاع دینے گیا! (اب آگےپڑھئے) میں فوراً ہی نرس کو لے آیا، میری بےچینی بےتابی سے اب تک تو ہسپتال کا اسٹاف بھی آگاہ ہو چکا تھا لہذا مجھے اُن کی جانب سے وی آئی پی ٹریٹمنٹ مل رہی تھی، نرس نے آتے ہی پہلے ابتدائی طور پر چیک کیا، اور پھر رپورٹ میں نہ جانے کیا درج کرتے ہوئے باہر نکل گئی، کچھ ہی دیر گزری ہوگی کہ چند جونیئر ڈاکٹر حضرات آگئے، شاید یہ ان کا اسٹڈی کیس تھا، بےدرپے مختلف واقعات نے اس کیس کو منفرد بنا دیا تھا، کومہ، ذہنی دباؤ، ولادت، کمزوری، اور الحمداللہ اس سب کے باوجود اللہ کی دعاؤں سے یہ سب ممکن ہوا، ڈاکٹر بھی اس پر حیران تھے، مگر میں مطمئن تھا، اللہ بہت بار اس طرح کے کرشمے دکھاتا ہے کہ کئی دفعہ ناممکنات کو ممکنات سے تبدیل کردیتا ہے اور انسان محو حیرت رہتا ہے کہ کیا سوچا تھا اور کیا ہوگیا مگر حکمت اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ کچھ ہی دیر میں وہی سینیئر ڈاکٹر صاحب کمرے میں داخل ہوئے جن سے میرا جھگڑا ہوا تھا، میں نے ان سے ہاتھ ملایا، "میں نے کہا تھا کہ آپ کی دعائیں بہت کام آئیں گی، ساحل صاحب، بہت بار ایسے کیسز سامنے آتے ہیں کہ ہم ڈاکٹر حضرات بھی حیران رہ جاتے ہیں، ہماری سائنس، حکمت و ڈاکٹری وہاں لاچار ہوجاتی ہے اور پھر بڑے سے بڑے ملحد کو بھی اللہ کی ذات پر یقین آجاتا ہے، ہم تو پھر عام گناہ گار مسلمان ہیں، اس طرح کے کیس ہمارے ایمان کی تقویت کا باعث بنتے ہیں، بظاہر ہمیں یوں ہی لگ رہا تھا کہ ماں اور بچے میں سے کسی ایک ہی کی جان بچ سکتی ہے، لیکن جب کیس کو ہاتھ میں لیا تو صورتحال مزید واضح ہوئی، معلوم ہوا کہ کیس ابھی اس نہج پر نہیں پہنچا، پھر آپ کے سخت رویہ نے ہماری بشری لاپرواہی اُڑن چھو کردی، تمام ٹیم اس کیس کو حل کرنے میں لگ گئی اور یوں ہم نے اللہ کی مدد سے اس کیس کو حل کیا، تمہاری دعائیں کام میں آگئیں اور دیکھو سب کچھ ٹھیک ہوگیا۔" میں کیا کہتا، سب کچھ تو انہوں نے کہہ ہی دیا تھا، مسکرا کر انہیں جگہ دی، وہ آگے بڑھے حور کا معائینہ کیا اور نرس کو کچھ مزید احکامات دے کر چلے گئے۔ اب مجھے ٹھیک طرح سے حور کو دیکھنے کا موقع ملا تھا، اس کی نظریں بےچینی سے ادھر اُدھر منڈلا رہی تھیں، میں سمجھ گیا، ماں اپنی اولاد کو دیکھنا چاہ رہی ہے، لہذا اپنی گُڑیا کو نرمی سے گود میں لیا اور گھوم کر بستر کی دوسری جانب سے اُٹھا کر حور کے پہلو میں لِٹا دیا، ایک ہلکی سے نقاہت زدہ مسکراہٹ حور کے لبوں پر آئی، اپنے ہاتھ پر زور دے کر اس نے بچی کو اپنے سینے سے نزدیک کیا اور اپنی آنکھیں بند کرلیں، دو ننھے ننھے آنسو اس کی آنکھ سے نکل پڑے، اس کے لب ہلے، "الحمد للہ ، الحمدللہ، الحمدللہ"، آنسو تو میرے بھی بہہ نکلے تھے، مگر میں نے دوسری جانب منہ کرکے اپنی آستین سے صاف کئے، میں نہیں چاہتا تھا کہ حور مجھے اس طرح دیکھے، ابھی اس کو بہت زیادہ ہمت کی ضرورت تھی۔ دوپہر تک اس کی حالت مزید بہتر ہوچکی تھی، شام تک باقی افراد بھی آگئے تھے رشتہ داروں کا تانتا بندھ گیا، مبارک بادوں اور مٹھائی کے ڈبوں کا ڈھیر لگ گیا تھا، جو بھی دیکھتا یہی کہتا کہ بچی اپنی ماں پرگئی ہے، نہ جانے کیوں یہ سُن کر ہر بار میں دل میں "الحمد للہ" کہتا، میری تو دعا ہی یہی تھی کہ اللہ کرے اس کی عادت و اطوار بھی حور سے ہی میل کھائیں۔ شام کو حور نے ہلکا سا کھانا کھایا، لوگوں کو اٹینڈ کرتی کرتی کافی تھک سی گئی تھی، رات لوگوں کا رش کم ہوا، بھائی بھی گھر چلے گئے، حور اور میری والدہ کے گھر جانے کے بعد میں اور حور ہی رہ گئے۔ مجھے بہت دیر بعد اس سے باتیں کرنے کا موقع ملا تھا، وہ بھی منتظر تھی، میں نے نہایت قریب آ کر اس سے سرگوشی میں کہا، "کیسی لگی میری "نور العین"؟"، حور نے حیرت سے مجھے دیکھا، پھر مسکرا کر مصنوعی ناراضگی سے کہنے لگی، "نام رکھ لیا اور مشورہ بھی نہیں"، ----- "اب بتا دیا نا! کیسا لگا؟"، میں نے پوچھا ۔ ۔ ۔ "بہت اچھا" وہ بولی، "بالکل اِس کی روشن آنکھوں جیسا" --------- صبح اماں کے آنے کے بعد مجھے تھوڑا وقت ملا تو میں نے سوچا کیوں نہ پرانے آفس اپنے واجبات کی وصولی کے لئے چکر لگا لیا جائے، مگر پہلے فون کرکے معلوم کرلوں، دبئی جانے سے قبل معلوم کیا تھا تو حساب بےباق نہیں ہوا تھا، اب اس بات کو کئی ماہ گزر چکے تھے، فون کیا تو معلوم ہوا کہ چیک تیار ہے اور میرا ہی انتظار کر رہا ہے، لہذا حور اور اماں کو ایک کام کا بتا کر وہاں سے روانہ ہوا، آفس پہنچا اور سیدھا فنانس ڈپارٹمنٹ گیا، چند کاغذات پر پر دستخط لئے گئے، کچھ ہی دیر میں چیک میرے پاس تھا، مجھے کچھ دیر انتظار کا کہا گیا، نہ جانے کیا بات تھی، "سر آپ سے ملنا چاہتے ہیں!"، فنانس آفیسر نے پیغام دیا۔ "اب کیا مصیبت پڑ گئی، کوئی پرانا کیس نہ کھول دیں"، میں نے دل میں سوچا اور ان کے آفس کی جانب چل پڑا مجھے دیکھ کر وہ مسکرائے، آگے بڑھ کر ہاتھ ملایا اور بیٹھنے کا کہا، ادھر اُدھر کی بات کی، کچھ دیر بعد میں نے اجازت چاہی اور بتایا کہ حور ہسپتال میں ہے۔ "ساحل، تم سے مجھے ایک ضروری بات کرنی تھی"، وہ دروازہ بند کرتے ہوئے واپس اپنی سیٹ پر آگئے "جی سر"، میں نے کہا، "ساحل، تمہارے جانے کے بعد ٹاپ مینیجمنٹ کی ایک میٹنگ ہوئی، اس میں ان تمام معاملات اور آڈٹ رپورٹ کا ازسرِ نو جائزہ لیا گیا تھا، اور ان ہی رپورٹ کی روشنی میں تین بڑی مچھلیوں کی کرپشن بےنقاب ہوئی تھی، ظاہر سی بات ہے اس کے بعد ان کی جاب تو کیا سلامت رہنی تھی، معاشرے میں اپنی نیک نامی اور ساکھ بھی کھو بیٹھے، کمپنی نے ان پر مقدمہ بھی کیا جس کو ابھی تک وہ بھگتا رہے ہیں، ساحل، کمپنی اپنے عمل پر بہت شرمندہ ہے" "میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں سر"، ان کی باتیں مجھے کچھ بھی نیا رُخ نہیں دکھا رہی تھیں، میں جلد ہسپتال واپس جانا چاہتا تھا تاکہ اپنا کام مکمل کرسکوں۔ "ساحل، کمپنی تم کو دوبارہ جاب آفر کرتی ہے، اپنی پرانی پوزیشن پر، تمہارا گریڈ بڑھا دیا جائیگا، اور چونکہ تمہارے پاس اب باہر کا بھی تجربہ ہے، لہذا تنخواہ بھی پہلے سے زیادہ ہوگی"، انہوں نے کہا ایک لمحے کو تو میں گڑبڑا گیا، ان کی مادہ پرستانہ آفر ہی ایسی تھی کہ کسی کا دل بھی لچا جاتا، میں نے کچھ دیر سوچا، "کیا سوچ رہے ہو؟"، انہوں نے پوچھا "سر، ایک بات کہوں، میری رپورٹ میں تو آپکی بھی کرپشن کی داستان تھی، اس پر کس قدر عمل ہوا؟" میں نے سیدھا سوال کیا "کیا بات کر رہے ہو ساحل، کمپنی نے اس رپورٹ کو بھی دیکھا تھا، مگر انہوں نے اس کو مسترد کردیا، تم سے جو کہا اس پر دھیان دو، ایسی آفر بار بار نہیں ملتی" ، انہوں نے ایک بات پھر لالچ دیا "سر میری بات کا جواب مل جائے تو میں کچھ سوچوں، میری رپورٹ پر عمل کیوں نہیں ہوا؟"، میں نے دوبارہ ان کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا "ساحل، وہ رپورٹ بوگس تھی، ساحل، ہم مل کر کام کرینگے، مجھے افسوس ہے پچھلی دفعہ تمہارے ساتھ ہونے والی زیادتی میں تمہارا ساتھ نہیں دے سکا!"، وہ بولے "سر لعنت بھیجتا ہوں میں ایسی نوکری پر، اتنی غیرت الحمدللہ ہے کہ بھیک میں ڈالی ہوئی نوکری پر لات مارتا ہوں، اللہ کے سوا کسی سے ڈرتا نہیں، میرا ایمان ہے رزق اس ہی ذات کے ہاتھ میں ہے، کسی فنانس مینجر کے ہاتھ میں نہیں، اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف، سر جو کمپنی میری تمام رپورٹ کو دوبارہ از سر نو زندہ کرکے تین افسران کو نکال سکتی ہے اور ایک رپورٹ کو چھوڑ دیتی ہے تو مجھے تو لگتا ہے کہ یہ بھی ایک بڑا گیم ہے اور اس گیم کا ایک حصہ آپ بھی ہیں، نوکری کرنی ہے سر کھیل اور سیاست نہیں کرنی! اور ہاں، جس طرح پچھلی بار آپ نے مجھے سپورٹ نہیں کیا تھا امید ہے آگے بھی جب آپ لوگوں کو ایک کاندھے کی ضرورت ہوگی مجھے یا مجھ جیسے کسی ملازم کو استعمال کیا جائے گا اور پھر ٹِشو پیپیر کی طرح پھینک دیا جائے گا۔ اس بات کا مجھے یقین ہے کہ پچھلی بات کیا، ، ، آئندہ بھی کبھی ایسا ہوا تو آپ کو اپنی سیٹ ہی بچانی ہوگی، کیسی مِڈل لیول ملازم کی نہیں!" میں نے چند جملوں میں ان کے چالیس سالہ تجربہ کا پول کھول دیا تھا، وہ آگے سے کچھ نہیں بولے، پتا تھا کہ اگر دوبارہ بھرتی کیا بھی گیا تو صرف اپنے کرپٹ مقاصد میں استعمال کی غرض سے کیا جائے گا اور کام نکلوا کر واپس پھینک دیا جائے گا، دوسری بات میری فطرت نہیں تھی کہ ایک جگہ سے دھکا کھا کر دوبارہ اس مقام پر جاؤں۔ لہذا اللہ پر بھروسہ کرکے آفر ان کے منہ پر مار کر نکل آیا۔ ------------------- واپسی پر چیک کیش کرا کر اپنے اکاؤنٹ میں جمع کروائے مبادا کہ سابق باس بپھرا ہوا سانپ بن کر چیک بھی نہ کینسل کروا دے۔ حور کو آ کر پوری بات بتائی اس نے بھی میرے فیصلے کو سراہا۔ تین دن بعد حور کو ڈسچارج کردیا گیا، نقاہت بہت تھی، ٹریٹمنٹ ختم ہوچکی تھی، ہسپتال میں بیڈ ریسٹ ہی دیا جارہا تھا، ڈاکٹر نے بھی رسمی اجازت دے دی تھی، لہذا اور ٹھہرنا منساب نہ سمجھا، گھر آ کر حور آرام ہی کرتی رہی، ننھی نور العین کو سنبھالنے کی ذمہ داری میں نے اور امی نے اٹھائی ہوئی تھی، اس کی آنکھیں بالکل حور کی طرح تھیں، بڑی بڑی، گہری۔ ----------------- (بقیہ حصہ اگلی پوسٹ میں)

ہفتہ، 5 ستمبر، 2015

September 06, 2015 at 01:02AM

"حور"۔۔۔ قسط: 28 ۔۔۔ تحریر: اویس سمیر۔۔۔ (گزشتہ سے پیوستہ) رات آپریشن شروع ہوا، بھائی بھی آچکے تھے، اور آتے ہی ان پر ایک کام کا بوجھ خون کا بندوبست کرنا تھا، میں نے بھی خون کے لئے اپنے دوستوں کو فون کرنا شروع کردیا، اللہ اللہ کرکے بندوبست ہوا، آپریشن اسٹارٹ ہوچکا تھا، اماں، بھائی اور میں باہر بیٹھے تھے، ماحول میں ٹینشن جیسے کوٹ کوٹ کر بھر دی گئی تھی، اچانک آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھُلا، ڈاکٹر صاحب نے مجھے ساتھ آنے کا اشارہ کیا، اندر تھیٹر کی جانب ایک طرف لے جا کر مجھے کہنے لگے، "صبح میں آپ سے ذکر کر چکا تھا، کیس بگڑ چُکا ہے، ابھی صورتحال مزید واضح ہوئی ہے، مجھے افسوس ہے ہم ماں اور بچے میں سے کسی ایک کو ہی بچا سکتے ہیں ۔ ۔ ۔ " میرا خون کھول رہا تھا، ڈاکٹر میری جانب حیران نظروں سے دیکھنے لگا، میں نے ان کی طرف دیکھ کر کہا ، "ڈاکٹر صاحب، جائیے جو آپکی ذمہ داری ہے وہ پوری کیجئے" "دیکھو، آپ کو ایک فیصلہ کرنا پڑیگا ۔ ۔ "، اس کے الفاظ ابھی زبان پر ہی تھے کہ میں نے جھپٹ کر اس کا گریبان پکڑ لیا "کیسا فیصلہ ۔ ۔؟؟" میں چینخا! ۔ ۔ ۔"تم کون ہوتے ہو جان بچانے والے؟" میں بےقابو ہورہا تھا، "زندگی دینے والی ذات صرف اللہ کی ہے اللہ کی!" میں نے اس کو جھٹکا دیا "جاؤ جا کر اپنی کوشش کرو ۔ ۔ مجھے نہیں کرنا کوئی فیصلہ ویصلہ ،، ، " وہ دیوار سے لگا خوف زدہ نظروں سے مجھے دیکھ رہا تھا "ساحل ساحل ۔۔ چھوڑو اسے ۔ ۔ دور ہٹو ۔ ۔ " ، بھائی دوڑتے ہوئے آئے اور مجھے چھڑانے لگے۔ (اب آگےپڑھئے) "ڈاکٹرصاحب معاف کیجئے گا، آپ جائیں ٹریٹمنٹ کریں، کسی چیز کی ضرورت ہو تو میں یہاں موجود ہوں۔۔ ۔ "، بھائی نے معذرت خواہانہ لہجے میں ڈاکٹر صاحب سے کہا پھر مجھے کاندھے سے پکڑ کے سائیڈ پر لے گئے، "ساحل، صبر کرو، ایسے معاملات حل نہیں ہوتے"، انہوں نے نہایت مدبرانہ انداز میں مجھ سے کہا "میرے معاملات ایسے ہی ہیں بھائی"، میں نے بغیر سوچے سمجھے کہا، "یہ فیصلے انسان کے اختیار میں نہیں بھائی، اگر کسی کی زندگی ہے تو یہ بھی لکھا ہے اور کسی کی موت لکھی ہے تو وہ بھی لکھا ہے، اور سب سے بڑھ کر مجھے کسی کی جان کی بھیک کسی ڈاکٹر سے نہیں مانگنی، اگر میں اپنے پیاروں کی زندگی کی بھیک مانگوں گا تو اللہ سے مانگوں گا۔" میں نے ایک یقین سے کہا، اور بات بھی یہی تھی، کیوں میں ایک انسان جو کہ خود لاچار مخلوق ہے کے سامنے دست سوال پھیلاؤں، آخر کیوں؟ میرا رُخ مسجد کی جانب تھا، اُس وقت آپریشن تھیٹر کے سامنے کھڑے ہوکر پریشان ہونے کا کوئی فائدہ مجھے نظر نہیں آیا، مجھے میری منزل مصلّے پر نظر آرہی تھی۔ کئی گھنٹے تک آپریشن جاری رہا، میں جائے نماز پر بیٹھا اللہ کے حضور اپنی اور اپنے ہونے والی اولاد کی زندگی کی بھیک مانگتا رہا، نظر بار بار آسمان کی جانب اٹھتی، مجھے نہیں معلوم تھا کہ آپریشن تھیٹر میں کیا ہورہا تھا، صرف اتنا پتا تھا کہ حور اس وقت تکلیف میں ہے اور اس کو کوئی چیز بچا سکتی ہے تو دعائیں ہی ہیں۔ ادھر بھائی آپریشن تھیٹر کے باہر کھڑے ہوئے تھے، خون کا بندوبست کرنا، کئی سارے کام انہوں نے اپنے ذمہ لے رکھے تھے، پریشانی کے وقت میں کسی کی تھوڑی سی بھی مدد بہت ہوتی ہے، اور یہ تو پھر ایک پوری ذمہ داری اٹھا لینے والی بات تھی، یہی وجہ تھی کہ مجھے پوری لگن کے ساتھ دعائیں مانگنے کا موقع مل گیا، میری دعاؤں میں اپنے بھائی کے لئے بھی بہت ساری دعائیں تھیں، بھلے اپنی مالی حالت کی وجہ سے وہ میری کوئی مالی امداد نہیں کرسکے لیکن زندگی کی ہر مشکل اور پریشانی میں ایک مضبوط سہارا بن کر میرے ساتھ موجود رہے۔ کافی دیر بعد میں واپس لوٹا، سب باہر خاموش کھڑے تھے، نہ جانے کیا ہوا تھا، شاید کوئی بات تھی ۔ ۔ یا پھر شاید کوئی اطلاع ملنی تھی، میرا دل پھٹنے لگا، نہ جانے کیا ہونے والا تھا ٹھیک اسی وقت، آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھلا، اور ڈاکٹر صاحب چہرے سے ماسک ہٹاتے ہوئے باہر نکلے، چہرے پر مسکراہٹ تھی، "الحمدللہ دونوں حیات ہیں!" انہوں نے کہا۔ میں سجدہ میں گِر گیا، آنسو میری آنکھوں سے رواں تھے۔ "مگر اگلے اڑتالیس گھنٹے بہت سیریس ہیں، آپکی دعائیں بہت کام آئیں گی"، ڈاکٹر نے میری جانب دیکھ کر لفظ "آپکی" پر زور دے کر کہا۔ "ہوش میں آتے ہی مجھے اطلاع پہنچائیں!"، اس نے ساتھ میں موجود نرس کو احکامات دئے۔ مجھے اللہ پر توکل تھا، بھروسہ تھا کہ جہاں اس نے اتنے مشکل حالات اور امتحانات میں کامیاب کیا وہ آگے بھی بھلا ہی کریگا، کچھ بھی ہو میں نے اس ہی کے در پر سر جھکانا ہے، مل جائے تو ٹھیک، نہ ملے تو اس کا اچھا نعم البدل اور اگر دنیا میں نہ ملا تو یقیناً اس کا اجر آخرت میں تو ضرور ملے گا، اللہ پر یقین ہو تو کچھ بھی ممکن ہے، وہی تو ہے جو کہتا ہے جو بھی مانگنا ہے مجھ سے مانگو، یہ ہم ہی ہیں کہ اس سے مانگنے کے بجائے دنیا میں اِدھر اُدھر غیروں کے دروں پر دھکے کھاتے ہیں۔ وہ تو کہتا ہے کہ تم قدم اُٹھاؤ میں چل کر آؤں گا، تم چل کر آؤ میں دوڑ کر آؤں گا، وہ تو کہتا ہے کہ تمہارا جوتے کا تسمہ بھی ٹوٹے تو مجھ سے مانگو، اور ہم ہیں کہ اس قدر اسپیشل آفر کو بھی نعوذباللہ قبول کرنے سے ہچکچاتے ہیں! حور سیریس حالت میں تھی، مگر مجھے میری دعاؤں پر بھروسہ تھا، بچی الحمدللہ ٹھیک ٹھاک تھی، میں نے اس کو اپنی گود میں لیا، میٹھی نیند سوتی ننھی مُنی، معصوم سی گُڑیا، "اِس کی بھی حور جیسی بڑی بڑی آنکھیں ہونگی"، میں نے سوچا، اور مسکرا دیا، اس کے نرم نرم گالوں کو چھوتا رہا، بہت دیر تک سینے سے لگا کر رکھا، اتنی تھکن اتنی ٹینشن کے بعد اللہ نے مجھے اتنا خوبصورت انعام جو دیا تھا، حور کی جانب سے پریشانی تھی مگر اس کو دیکھا اس کا چہرہ بہتر لگ رہا تھا، جس طرح میں نے اس کو کومہ کی حالت میں دیکھا تھا اس سے کہیں زیادہ بہتر لگ رہی تھی، مجھے اپنی دعاؤں پر یقین تھا جیسے اللہ نے اس دعا کو قبول کیا ویسے ہی باقی بھی قبول ہونگی، یہی تو حکم ہے، "توکّل!" اس کی ذات پر، پھر ہر مشکل آسان ہوجاتی ہے، بس اس کی چاہت کو اپنی چاہت بنا لو، یا پھر اپنی چاہت کو اس کی چاہت کے مطابق ڈھال لو! اگلی شام میں حور کے سرہانے بیٹھا ہوا تھا کہ مجھے اس کی نقاہت بھری آواز آئی، "ساحل! ۔ ۔ ۔"، اُس کو ہوش آرہا تھا، میں فوراً نرس کر اطلاع دینے گیا! (جاری ہے) کیا حور ٹھیک ہوجائے گی؟ ہسپتال کا بِل ۔ ۔ ۔ ایک نئی پریشانی، کیسے حل ہوگی؟ کیا ساحل واپس حور کو چھوڑ کر واپس دبئی چلا جائیگا؟ کیا کہانی کا اختتام جدائی ہے؟ یا پھر نہیں؟ کیا اشیاء کی محبت، احساس کی محبت پر غالب آجائے گی؟ پڑھئے ۔ ۔ ۔ کل آخری قسط! (حور - - - اویس سمیر)